1. باپ (دادا) کی قسم اٹھانے کی ممانعت۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم کو باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا میں نے (باپ دادا) کی قسم نہیں کھائی ہے، نہ اپنی طرف سے نہ دوسرے کی طرف سے (حکایت کرتے ہوئے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1010]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قسم کھانا چاہے وہ کوئی قسم نہ کھائے سوائے اللہ تعالیٰ کی قسم کے۔ اور قریش اپنے باپ دادا کی قسم کھایا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے باپ دادا کی قسم مت کھاؤ۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1011]
2. طاغوت (بت اور جھوٹے معبودوں) کی قسم کی ممانعت۔
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مت قسم کھاؤ بتوں کی اور نہ اپنے باپ داداؤں کی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1012]
3. جو ”لات و عزیٰ“ کی قسم کھائے اس کو ((لا الٰہ الا اللہ)) کہنا چاہیئے (یعنی تجدید ایمان کرے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے اپنی قسم میں یہ کہے کہ لات کی قسم! تو اسے چاہئے کہ لا الٰہ الا اللہ کہے۔ اور جو کوئی کسی دوسرے سے کہے کہ آؤ جواء کھیلیں تو وہ صدقہ کرے۔ ایک روایت میں ”لات“ کے ساتھ ”عزیٰ“ کا بھی ذکر ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1013]
4. قسم میں ((ان شاء اللہ)) کہنا مستحب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نبی سلیمان بن داؤد علیہ السلام نے کہا کہ میں آج رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا (ایک روایت میں نوے ہیں، ایک میں ننانوے اور ایک میں سو) ہر ایک ان میں سے ایک لڑکا جنے گی، جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی یا فرشتے نے کہا کہ انشاءاللہ تعالیٰ کہو۔ لیکن انہوں نے نہیں کہا، وہ بھول گئے۔ پھر کسی عورت نے بچہ نہ جنا سوائے ایک کے اور وہ بھی آدھا بچہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ انشاءاللہ کہتے تو ان کی بات رد نہ جاتی اور ان کا مطلب پورا ہو جاتا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1014]
5. قسم کا مطلب قسم اٹھوانے والے کی نیت کے موافق ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم کا مطلب قسم کھلانے والے کی نیت کے موافق ہو گا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1015]
6. جو اپنی (جھوٹی) قسم کے ذریعہ مسلمان کا حق مارتا ہے، اس کے لئے جہنم واجب ہے۔
سیدنا ابوامامہ (یعنی حارثی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مسلمان کا حق (مال ہو یا غیر مال جیسے مردے کی کھال گوبر وغیرہ یا اور قسم کے حقوق جیسے حق شفعہ حق شرب حد قذف بیوی کے پاس رہنے کی باری وغیرہ) قسم کھا کر مار لے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جہنم کو واجب کر دیا اور اس پر جنت کو حرام کر دیا۔ ایک شخص بولا یا رسول اللہ! اگر وہ ذرا سی چیز ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ پیلو کی ایک ٹہنی ہی ہو۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1016]
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرموت سے ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ حضرموت والے نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس شخص نے میری زمین دبا لی ہے جو میرے باپ کی تھی۔ کندہ والے نے کہا کہ وہ میری زمین ہے، میرے قبضہ میں ہے، میں اس میں کھیتی کرتا ہوں، اس کا کچھ حق نہیں ہے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرموت والے سے فرمایا کہ تیرے پاس گواہ ہیں؟ وہ بولا کہ نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو پھر اس سے قسم لے لو۔ وہ بولا یا رسول اللہ! وہ تو فاجر ہے قسم کھانے میں اس کو ڈر نہیں اور وہ کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا، وہ قسم کھا سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے یہی ممکن ہے۔ جب وہ قسم کھانے چلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے فرمایا: دیکھو! اگر اس نے دوسرے کا مال ناحق اڑا لینے کو قسم کھائی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے گا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1017]
7. جو قسم اٹھائے اور پھر دیکھے کہ قسم کے خلاف کرنے میں بہتری ہے تو وہ کفارہ دے اور وہ کام کرے جس میں بہتری ہے۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند اشعریوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگنے کے لئے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تم کو سواری نہیں دوں گا اور نہ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کوئی سواری ہے۔ پھر ہم ٹھہرے رہے جتنی دیر کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹ آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید کوہان کے تین اونٹ ہمیں دینے کا حکم کیا۔ جب ہم چلے تو ہم نے یا بعضوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں برکت نہ دے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سواری مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ ہمیں سواری نہ ملے گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سواری دی۔ پھر لوگوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں سوار نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے سوار کیا اور میں تو اگر اللہ چاہے تو کسی بات کی قسم نہ کھاؤں گا مگر پھر اس سے بہتر دوسرا کام دیکھوں گا تو اپنی قسم کا کفارہ دوں گا اور وہ کام کروں گا جو بہتر ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1018]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کو رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دیر ہو گئی، پھر وہ اپنے گھر گیا تو بچوں کو دیکھا کہ وہ سو گئے ہیں۔ اس کی عورت کھانا لائی تو اس نے قسم کھا لی کہ میں اپنے بچوں کی وجہ سے نہ کھاؤں گا پھر اس کو کھانا مناسب معلوم ہوا اور اس نے کھا لیا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی بات کی قسم کھائے لیکن پھر دوسری بات اس سے بہتر سمجھے تو وہ کرے اور قسم کا کفارہ دیدے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1019]