1. اصل (زمین، باغ وغیرہ) کو اپنے پاس رکھنا اور اس کے غلہ (آمدن) کو صدقہ کرنا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خیبر میں ایک زمین ملی تو وہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کرنے کو آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں ایک زمین ملی ہے اور ایسا عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو چاہے تو زمین کی ملکیت کو روک رکھے (یعنی اصل زمین کو) اور اس (کی پیداوار) کا صدقہ کر دو۔“ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط پر صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ خریدی جائے، نہ وہ کسی کی میراث میں آئے اور نہ ہبہ کی جائے اور اس کو فقیروں اور رشتہ داروں اور غلاموں میں (یعنی ان کی آزادی میں مدد دینے کے لئے) اور مسافروں اور ناتواں لوگوں میں یا مہمان کی مہمانی میں اور جو کوئی اس کا انتظام کرے وہ اس میں سے دستور کے موافق کھائے یا کسی دوست کو کھلائے لیکن مال اکٹھا نہ کرے (یعنی روپیہ جوڑنے کی نیت سے اس میں تصرف نہ کرے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1000]
2. موت کے بعد کس چیز کا ثواب انسان کو ملتا رہتا ہے؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا، دوسرے اس علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد کا جو اس کے لئے دعا کرے۔“ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1001]
3. اس شخص کی طرف سے صدقہ (کرنا) جو فوت ہو گیا اور اس نے کوئی وصیت بھی نہیں کی۔
اس باب کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کتاب الزکوٰۃ میں گزر چکی ہے (دیکھئیے حدیث: 235)`۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1001M]