ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «المهيمن» امین کے معنی میں ہے۔ قرآن اپنے سے پہلے کی ہر آسمانی کتاب کا امانت دار اور نگہبان ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4978]
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے یحییٰ بن کثیر نے ‘ ان سے سلمی بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا کہ مجھ کو عائشہ، عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال رہے اور قرآن نازل ہوتا رہا اور مدینہ میں بھی دس سال تک رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہاں بھی قرآن نازل ہوتا رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4978]
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے یحییٰ بن کثیر نے ‘ ان سے سلمی بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا کہ مجھ کو عائشہ، عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال رہے اور قرآن نازل ہوتا رہا اور مدینہ میں بھی دس سال تک رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہاں بھی قرآن نازل ہوتا رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4979]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے ‘ کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا ‘ ان سے ابوعثمان مہدی نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے لگے۔ اس وقت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس موجود تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ جانتی ہو یہ کون ہیں؟ یا اسی طرح کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے۔ ام المؤمنین نے کہا کہ دحیہ الکلبی ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: اللہ کی قسم! اس وقت (تک) بھی میں انہیں دحیہ الکلبی سمجھتی رہی۔ آخر جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کے آنے کی خبر سنائی تب مجھے حال معلوم ہوا یا اسی طرح کے الفاظ بیان کئے۔ معتمر نے بیان کیا کہ میرے والد (سلیمان) نے کہا ‘ میں نے ابوعثمان مہدی سے کہا کہ آپ نے یہ حدیث کس سے سنی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہا سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4980]
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے سعد مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے (بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا) اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4981]
ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد (ابراہیم بن سعد) نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا، مجھ سے انس بن مالک نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پے در پے وحی اتارتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریبی زمانے میں تو بہت وحی اتری پھر اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4982]
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، کہا کہ میں نے جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے اور ایک یا دو راتوں میں (تہجد کی نماز کے لیے) نہ اٹھ سکے تو ایک عورت (عوراء بنت رب ابولہب کی جورو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی محمد! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى»”قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑ ا ہے اور نہ وہ آپ سے خفا ہوا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4983]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت، سعید بن عاص، عبداللہ بن زبیر، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ قرآن مجید کو کتابی شکل میں لکھیں اور فرمایا کہ اگر قرآن کے کسی محاورے میں تمہارا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو تو اس لفظ کو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھو، کیونکہ قرآن ان ہی کے محاورے پر نازل ہوا ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4984]
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ہم سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا۔ (دوسری سند) اور (میرے والد) مسدد بن زید نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو عطاء بن ابی رباح نے خبر دی، کہا کہ مجھے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ (میرے والد) یعلیٰ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ہو۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کر دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ موجود تھے کہ ایک شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ جس نے خوشبو میں بسا ہوا ایک جبہ پہن کر احرام باندھا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہو گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ کو اشارہ سے بلایا۔ یعلیٰ آئے اور اپنا سر (اس کپڑے کے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سایہ کیا گیا تھا) اندر کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے سانس لے رہے تھے، تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر یہ کیفیت دور ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟ اس شخص کو تلاش کر کے آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جو خوشبو تمہارے بدن یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے اس کو تین مرتبہ دھو لو اور جبہ کو اتار دو پھر عمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4985]