الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مختصر صحيح مسلم کل احادیث (2179)
حدیث نمبر سے تلاش:

مختصر صحيح مسلم
لعان کے مسائل
1. اس آدمی کے متعلق جو اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو پائے۔
حدیث نمبر: 865
سیدنا سہل بن ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی انصاری کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم! بھلا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے تو کیا اس کو مار ڈالے؟ (اگر وہ مار ڈالے) تو پھر تم (اس مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالو گے یا وہ کیا کرے؟ تو یہ مسئلہ میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ اسے پوچھا تو آپ نے اس قسم کے سوالوں کو ناپسند کیا اور ان کی برائی بیان کی۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ ان کو شاق گزرا۔ جب وہ اپنے لوگوں میں لوٹ کر آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے عویمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو میرے پاس اچھی چیز نہیں لایا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا (یہ) مسئلہ پوچھنا ناگوار ہوا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو باز نہ آؤں گا جب تک یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھوں گا پھر عویمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمام لوگوں (محفل) میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کیا فرماتے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس غیر مرد کو دیکھے تو (کیا) اس کو مار ڈالے؟ پھر آپ اس (مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالیں گے یا وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم اترا تو جا اور اپنی بیوی کو لے کر آ۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا جب وہ فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اب اس عورت کو رکھوں تو میں جھوٹا ہوں پھر سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اس کو تین طلاق دیدیں اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو (اس بات کا) حکم کرتے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ ٹھہر گیا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 865]
حدیث نمبر: 866
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اس کو ہاتھ نہ لگاؤں جب تک چار گواہ نہ لاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں بیشک۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہرگز نہیں، قسم اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں تو اس علاج تلوار سے جلد ہی کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے سردار کیا کہتے ہیں؟ وہ بڑے غیرت دار ہیں اور میں ان سے زیادہ غیرت دار ہوں اور اللہ جل جلالہ مجھ سے زیادہ غیرت رکھتا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 866]
حدیث نمبر: 867
سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کی خلافت میں مجھ سے لعان کرنے والوں کا مسئلہ پوچھا گیا تو میں حیران ہوا کہ کیا جواب دوں تو میں مکہ میں واقع سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان کی طرف چلا اور ان کے غلام سے کہا کہ میری عرض کرو۔ اس نے کہا کہ وہ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) آرام کرتے ہیں انہوں نے میری آواز سنی تو کہا کہ کیا جبیر کا بیٹا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اندر آ جاؤ، اللہ کی قسم تم کسی کام سے آئے ہو گے۔ میں اندر گیا تو وہ ایک کمبل بچھائے بیٹھے تھے اور ایک تکئے پر ٹیک لگائے تھے جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا میں نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن! لعان کرنے والوں میں جدائی کی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ! بیشک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس باب میں فلاں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جو فلاں کا بیٹا تھا۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ کیا سجھتے ہیں اگر ہم میں سے کوئی اپنی عورت کو برا کام کراتے دیکھے تو کیا کرے اگر منہ سے نکالے تو بری بات اگر چپ رہے تو ایسی بری بات سے کیونکر چپ رہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے اور جواب نہیں دیا پھر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! جو بات میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی میں خود اس میں پڑ گیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں سورۃ النور میں اور وہ لوگ جو اپنی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں........ آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اس کو نصیحت کی اور سمجھایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے (یعنی اگر تو جھوٹ طوفان باندھتا ہے تو اب بھی بول دے حد قذف کے اسی کوڑے پڑ جائیں گے مگر یہ جہنم میں جلنے سے آسان ہے) وہ بولا قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ بھیجا کہ میں نے عورت پر طوفان نہیں جوڑا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس کو ڈرایا اور سمجھایا اور فرمایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے وہ بولی کہ قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے کہ میرا خاوند جھوٹ بولتا ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد سے شروع کیا اور اس نے چار گواہیاں دیں اللہ تعالیٰ نے نام کی یقیناً وہ سچا ہے اور پانچویں بار یہ کہا کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو پھر عورت کو بلایا اور اس نے چار گواہیاں دیں اللہ تعالیٰ کے نام کی یقیناً مرد جھوٹا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ اس عورت پر اللہ کا غضب نازل ہو اگر مرد سچا ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کر دی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 867]
حدیث نمبر: 868
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں کو فرمایا کہ تم دونوں کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے اور تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند سے فرمایا کہ اب تیرا عورت پر کوئی بس نہیں کیونکہ وہ تجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی۔ مرد بولا کہ یا رسول اللہ! میرا مال، جو اس نے لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال تجھے نہیں ملے گا کیونکہ اگر تو سچا ہے تو اس مال کا بدلہ ہے جو اس کی شرمگاہ تجھ پر حلال ہو گئی اور اگر تو جھوٹا ہے تو مال اور دور ہو گیا (یعنی بلکہ تیرے اوپر جھوٹ کا اور وبال ہوا) [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 868]
حدیث نمبر: 869
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لعان کیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان جدائی کر دی اور بچے کا نسب ماں سے لگا دیا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 869]
حدیث نمبر: 870
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ انہیں معلوم ہے پس انہوں نے کہا کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے نسبت کی زنا کی اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے اور ہلال بن امیہ براء بن مالک رضی اللہ عنہ کا مادری بھائی تھا اور اس نے اسلام میں سب سے پہلے لعان کیا راوی نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اس عورت کو دیکھتے رہو اگر اس کا بچہ سفید رنگ کا سیدھے بالوں والا، لال آنکھوں والا پیدا ہو تو وہ ہلال بن امیہ کا ہے اور جو سرمگین آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا، پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ اس عورت کا لڑکا سرمگین آنکھ، گھونگھریالے بال، پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہوا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 870]
2. بچے کا انکار اور ”رگ“ کے گھسیٹنے کے متعلق۔
حدیث نمبر: 871
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی فزارہ میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میری بیوی کے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے (تو وہ میرا معلوم نہیں ہوتا کیونکہ میں کالا نہیں ہوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا رنگ کیا ہے؟ وہ بولا کہ لال ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں کوئی خاکی بھی ہے؟ اس نے کہا ہاں خاکی بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یہ رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا کسی رگ نے گھسیٹ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے بچے میں بھی کسی رگ نے یہ رنگ گھسیٹ لیا ہو گا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 871]
3. بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا۔
حدیث نمبر: 872
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ دونوں نے ایک لڑکے کے بارے میں جھگڑا کیا سیدنا سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ لڑکا میرے بھائی کا بچہ ہے کہ میرے بھائی کا نام عتبہ بن ابی وقاص ہے اور انہوں نے مجھ سے کہہ رکھا تھا کہ یہ میرا فرزند ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں شباہت ملاحظہ فرما لیں اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ لڑکا میرا بھائی ہے میرے باپ کے فراش پر اس کی لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ عتبہ کے ساتھ بخوبی مشابہت رکھتا ہے اور فرمایا کہ اے عبد! لڑکا اسی کا ہے جس کے فراش پر پیدا ہوا اور زانی کو بے نصیبی اور محرومی ہے یا پتھر۔ اور اے سودہ (رضی اللہ عنہا) زمعہ کی بیٹی! تم اس سے پردہ کرو پھر ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے اس کو کبھی نہیں دیکھا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 872]
4. قیافہ شناس کی بات بچے کے متعلق قابل قبول ہے۔
حدیث نمبر: 873
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش تھے اور فرمایا کہ اے عائشہ! کیا تو نے نہ دیکھا کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا اور اسامہ اور زید دونوں کو دیکھا اور یہ دونوں ایک چادر اس طرح اوڑھے تھے کہ ان کا سر ڈھپا ہوا تھا اور پیر کھلے تھے تو اس نے کہا کہ یہ پیر ایک دوسرے کے جزو ہیں (یعنی ایک باپ کے ہیں دوسرے بیٹے کے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 873]