38. جو شخص احرام کی حالت میں فوت ہو جائے، اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟
حدیث نمبر: 689
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اونٹ سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی جس سے وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کو اسی کے دو کپڑوں (یعنی احرام کی چادروں) میں کفن دو اور اس کا سر نہ ڈھانپو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھائے گا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 689]
39. ذی طویٰ میں رات گذارنا اور مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرنا۔
حدیث نمبر: 690
نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں جاتے ہوئے ذی طویٰ میں رات گزارتے، پھر صبح غسل کرتے اور پھر دن کے وقت مکہ میں داخل ہوتے تھے اور ذکر کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 690]
40. مکہ و مدینہ میں ایک راستے سے داخل ہو اور دوسرے راستے سے نکلے۔
حدیث نمبر: 691
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (مدینہ سے) نکلتے تو شجرہ کی راہ سے نکلتے اور معرس کی راہ سے داخل ہوتے (معرس مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے) اور جب مکہ میں داخل ہوتے تو اوپر کے ٹیلے سے داخل ہوتے اور جب نکلتے تو نیچے کے ٹیلے سے نکلتے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 691]
41. حاجیوں کے مکہ مکرمہ میں اترنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 692
سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مکہ میں اپنے گھر رہائش فرمائیں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر یا چار دیورای چھوڑی ہے؟ (کہ وہاں رہائش کریں گے) کیونکہ ابوطالب کے وارث تو عقیل اور طالب ہوئے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کسی چیز کے وارث نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہو گئے تھے اور عقیل اور طالب مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ (اس وجہ سے مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 692]
42. طواف اور سعی میں رمل کرنا (یعنی تیز چلنا یا دوڑنا)۔
حدیث نمبر: 693
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج یا عمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے، پھر چار بار چلتے، پھر دو رکعت نماز پڑھتے پھر صفا اور مروہ کی سعی کرتے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 693]
حدیث نمبر: 694
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حجراسود سے حجراسود تک تین چکروں میں دوڑتے ہوئے طواف کیا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 694]
حدیث نمبر: 695
سیدنا ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے طواف میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی جھوٹے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب کہ انہوں نے سچ بولا اور جھوٹ کہا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا، کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بیت اللہ شریف کا طواف ضعف اور لاغری و کمزوری کے سبب نہیں کر سکتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصودہ سمجھا، یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا کہ ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان میں سوار ہو کر سعی کرنے کے بارے میں بتائیے کہ کیا یہ سنت ہے؟ کیونکہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ میں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو بچو، جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے، ویسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلا ضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہو کر سعی کی)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 695]
43. طواف کے دوران حجراسود کا بوسہ۔
حدیث نمبر: 696
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے اصلع (یعنی جس کے سر پر بال نہ ہوں، اس سے مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں) کو دیکھا (اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا لقب اگر مشہور ہو جائے اور وہ اس سے برا نہ مانے تو اس لقب سے اسے یاد کرنا درست ہے اگرچہ دوسرا شخص برا مانے) اور وہ حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں تجھے بوسہ دیتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے کہ نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے بوسہ دیتے تھے تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا (اس قول سے بت پرستوں اور گور (قبر) پرستوں اور چلہ پرستوں کی نانی مر گئی جو قبروں وغیرہ کو اس خیال سے بوسہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد دیں گے اس لئے کہ جب حجراسود جو یمن اللہ ہے اس کا بوسہ بھی اتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ہے نہ اس خیال سے کہ ضرر رساں یا نفع دہندہ ہے تو پھر اور چیزیں جن کا بوسہ کہیں ثابت نہیں بلکہ منع ہے اس خیال ناپاک کے ساتھ کیونکر جائز ہو گا؟)[مختصر صحيح مسلم/حدیث: 696]
44. طواف میں رکنین یمانیین (حجراسود، رکن یمانی) کا استلام
حدیث نمبر: 697
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجراسود اور رکن یمانی کو استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے، تب سے میں نے (بھی ان کا استلام) نہیں چھوڑا نہ سختی میں نہ آرام میں (یعنی کتنی ہی بھیڑ بھاڑ ہو میں استلام نہیں چھوڑتا)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 697]
حدیث نمبر: 698
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکنین یمانیین (حجراسود اور رکن یمانی) کے علاوہ استلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (یعنی دوسرے دو ارکان کا استلام نہیں کیا)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 698]