1. جو شخص اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہو وہ جائے اعتکاف میں کب داخل ہو؟
حدیث نمبر: 631
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے۔ اور ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسجد میں) اپنا خیمہ لگانے کا حکم فرمایا۔ وہ لگا دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے عشرہ اخیر میں اعتکاف کا ارادہ کیا تھا تو ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے لئے خیمہ لگانے کا کہا تو ان کے لئے بھی خیمہ لگا دیا گیا۔ پھر دوسری امہات المؤمنین نے کہا تو ان کے خیمے بھی لگا دئیے گئے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ چکے تو سب خیموں کو دیکھا اور فرمایا کہ ان لوگوں نے کیا نیکی کا ارادہ کیا ہے؟ (اس میں بوئے ریا پائی جاتی ہے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خیمہ کھولنے کا حکم دیا تو اسے کھول دیا گیا اور آپ نے رمضان میں اعتکاف ترک کر دیا یہاں تک کہ پھر شوال کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 631]
2. پہلے عشرے اور درمیانی عشرے کا اعتکاف۔
حدیث نمبر: 632
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں کہ جس کے دروازے پر چٹائی لٹکی ہوئی تھی، اعتکاف کیا۔ (تیسرے عشرہ کے شروع میں)(سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے چٹائی کو پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کر دیا اور اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے مخاطب ہوئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے رات (لیلۃالقدر) کی تلاش میں پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) آیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ (لیلۃالقدر کی) یہ رات آخری عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہے تو وہ اعتکاف کرے۔ چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ وہ طاق راتوں میں ہے اور میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیسویں شب کی صبح ہوئی اور اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ اور بارش ہوئی تو مسجد ٹپکی اور میں نے مٹی اور پانی کو دیکھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک کی چوٹی پر مٹی اور پانی کا نشان تھا اور وہ آخری عشرہ رمضان کی اکیسویں رات تھی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 632]
3. رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف۔
حدیث نمبر: 633
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے اعتکاف کیا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 633]
4. آخری عشرہ میں (عبادت و ریاضت میں) محنت و کوشش۔
حدیث نمبر: 634
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے اور کمر، ہمت باندھ لیتے تھے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 634]
5. لیلۃالقدر اور اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا۔
حدیث نمبر: 635
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈھو پھر اگر کوئی کمزوری دکھائے یا عاجز ہو جائے تو آخر کی سات راتوں میں سست نہ ہو۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 635]
6. لیلۃالقدر اکیسویں رات ہو سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 635M
اس باب کے بارے میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے (دیکھئیے حدیث: 632)`۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 635M]
7. لیلۃالقدر تیئس کی رات ہو سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 636
سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اور میں نے (خواب میں) دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ راوی نے کہا کہ ہم پر تئیسویں شب کو بارش برسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر پھرے (یعنی صبح کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا اثر تھا۔ اور سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تئیسویں رات کو شب قدر کہا کرتے تھے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 636]
8. (لیلۃالقدر کو) اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں رات میں تلاش کرو۔
حدیث نمبر: 637
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃالقدر کا عالم دیئے جانے سے قبل اسے ڈھونڈھتے تھے۔ جب درمیانی عشرہ گزر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ کھولنے کا حکم دیا تو وہ کھول دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم کروا دیا گیا کہ یہ آخری عشرہ میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم کیا تو دوبارہ لگا دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس آئے تو فرمایا: اے لوگو! مجھے لیلۃالقدر کا علم دے دیا گیا تھا اور میں تمہیں بتانے کے لئے نکلا تھا کہ دو آدمی لڑتے ہوئے آئے جن کے ساتھ شیطان بھی تھا، تو (اس کی تعیین) مجھے بھلا دی گئی۔ اب تم اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو (آخری عشرے کی) نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس عدد کے بارے میں تم ہم سے زیادہ علم رکھتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ راوی کہتے ہیں، میں نے کہا کہ نویں، ساتویں اور پانچویں سے کون سی راتیں مراد ہیں؟ (انہوں نے) کہا کہ جب اکیسویں رات گزر جائے کہ جس کے بعد بائیسویں رات آتی ہے، یہی نویں سے مراد ہے۔ اور جب تئیسویں گزر جائے تو اس کے بعد والی آتی ہے، یہی ساتویں سے مراد ہے اور جب پچیسویں رات گزر جائے تو جو اس کے بعد والی ہے، یہی مراد ہے پانچویں سے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 637]
9. لیلۃالقدر ستائیسویں کی رات بھی ہو سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 638
سیدنا زر بن حبیش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جو سال بھر تک جاگے گا، اس کو شب قدر ملے گی تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، یہ کہنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (بلکہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہیں) ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ وہ رمضان میں، آخری عشرہ میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ پھر انہوں نے بغیر انشاءاللہ کہے قسم اٹھا کر کہا کہ کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومنذر! تم یہ دعویٰ کس بنا پر کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک نشانی یا علامت کی وجہ سے جس کی خبر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، وہ یہ کہ اس کی صبح کو آفتاب جو نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی (مگر یہ علامت اس رات کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 638]