ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورے (دس محرم) کے دن روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس (دن) کے روزے کا حکم فرمایا، یہاں تک کہ جب رمضان فرض ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہے اس دن (عاشورہ) کا روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 611]
35. عاشورہ کے کون سے دن روزہ رکھے؟
حدیث نمبر: 612
حکم بن اعرج سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا اور وہ اپنی چادر پر زمزم کے کنارے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ پس میں نے کہا کہ مجھے عاشورہ کے روزے کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا کہ جب تم محرم کا چاند دیکھو تو تاریخیں گنتے رہو۔ پھر جب نو (9) تاریخ ہو تو اس دن روزہ رکھو۔ میں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 612]
36. عاشورہ کے دن کے روزے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 613
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو (فرعون سے) نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا، اس لئے مو سیٰ علیہ السلام نے شکرانے کا روزہ رکھا اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے دوست اور قریب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 613]
حدیث نمبر: 614
عبیداللہ بن ابی یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا۔ ان سے عاشورہ کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دن کا روزہ رکھا ہو اور دنوں میں سے اس دن کی بزرگی ڈھونڈنے کو، سوا اس دن کے اور کسی مہینے کا سوا رمضان کے مہینے کے (یعنی دنوں میں عاشورہ کا دن اور مہینوں میں رمضان کو بزرگ جانتے ہیں)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 614]
37. جس نے یوم عاشورہ کو کچھ کھا لیا، وہ بقیہ دن (کھانے پینے سے) باز رہے۔
حدیث نمبر: 615
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح کو مدینہ کے گرد انصار کی بستیوں میں حکم بھیجا کہ جس نے روزہ رکھا وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے صبح سے افطار کیا ہو وہ باقی دن (روزہ) پورا کرے (یعنی اب کچھ نہ کھائے)۔ پھر اس کے بعد ہم روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اللہ چاہتا روزہ رکھواتے تھے اور مسجد میں چلے جاتے اور بچوں کے لئے روئی کی گڑیاں بناتے تھے۔ پھر جب کوئی (بچہ) روٹی کے لئے رونے لگتا تھا تو اس کو وہی (گڑیا) کھیلنے کو دیدیتے تھے یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا تھا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 615]
38. شعبان کا روزہ۔
حدیث نمبر: 616
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے روزے رکھتے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت روزے رکھے اور اتنا افطار کرتے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت افطار کیا۔ اور میں نے ان کو جتنا شعبان میں روزے رکھتے دیکھا، اتنا اور کسی ماہ میں نہیں دیکھا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے۔ آپ چند دنوں کے سوا پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 616]
39. شعبان کے پہلے پندرہ دنوں میں روزہ رکھنے کے متعلق۔
حدیث نمبر: 617
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا کسی دوسرے سے فرمایا کہ کیا تم نے شعبان کے شروع میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم افطار کر لو تو دو دن روزہ رکھو۔ (یعنی جب رمضان کے مہینے سے فارغ ہو جاؤ تو دو روزے رکھنا)[مختصر صحيح مسلم/حدیث: 617]
40. رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا۔
حدیث نمبر: 618
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رمضان کے روزے رکھے اور اس کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ سارا سال روزہ رکھنے کی مثل ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 618]
41. ذوالحجہ کے دس دنوں میں روزہ نہ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 619
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزے سے نہیں دیکھا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 619]
42. عرفہ کے دن کے روزے کا بیان۔
حدیث نمبر: 620
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے روزہ رکھتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے (اس لئے کہ یہ سوال بے موقع تھا اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیسے رکھوں) پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو عرض کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے اور ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے پناہ مانگتے ہیں۔ غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باربار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ تھم گیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔ پھر کہا کہ جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی طاقت کس کو ہے۔ پھر پوچھا کہ جو ایک دن روزہ رکھے او رایک دن افطار کرے، وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ روزہ داؤد علیہ السلام کا ہے۔ پھر پوچھا کہ جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو (یعنی یہ بھی خوب ہے اگر طاقت ہو)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ماہ تین روزے اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک، یہ ہمیشہ کا روزہ ہے (یعنی ثواب میں)۔ اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورہ کے روزہ سے امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلے کا کفارہ ہو جائے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 620]