1. امام کا حکم سننا اور اس کی فرمانبرداری کرنا اس وقت تک ضروری ہے جب تک کہ (وہ حکم) گناہ (کا باعث) نہ ہو۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حاکم کا حکم) سنو اور فرمانبرداری کرو، اگرچہ حبشی غلام ہی کو تم پر حاکم کیوں نہ بنا دیا جائے اور اس کا سر ایسا ہو جیسے کشمش (یعنی بہت ہی چھوٹا)۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2199]
2. حکومت حاصل کرنے کی حرص کرنا منع ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم لوگ حکومت اور سرداری کی حرص کرو گے اور وہ قیامت میں ندامت اور شرمندگی کا باعث ہو گی۔ پس کیا ہی بہتر ہے دودھ پلانے والی اور کیا ہی بری ہے دودھ چھڑانے والی۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2200]
3. جو شخص رعیت کا والی بنایا جائے پس وہ ان کی خیرخواہی نہ کرے۔
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ جس بندے کو اللہ نے رعیت کا حاکم بنایا پھر اس نے اپنی رعیت کی خیرخواہی کے ساتھ نگہبانی نہ کی تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکے گا۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2201]
سیدہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مسلمان رعیت پر حاکم ہوا اور پھر اگر وہ ان (مسلمانوں) کے ساتھ خیانت کی حالت میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2202]
4. جس نے (لوگوں کو) مشقت میں ڈالا، اللہ اس کو مشقت میں ڈالے گا۔
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جس نے لوگوں کو سنانے کے لیے نیک اعمال کیے، اللہ اس کے پوشیدہ (یعنی نیت فاسدہ) کو قیامت کے دن لوگوں پر ظاہر کرے گا اور جس نے لوگوں پر مشقت ڈالی تو اللہ قیامت کے دن اس پر مشقت ڈالے گا۔“ لوگوں نے ان سے کہا کہ اور کچھ نصیحت فرمائیے تو انھوں نے کہا: ”انسان (کے بدن) میں سے سب سے پہلے جو چیز سڑتی ہے وہ اس کا پیٹ ہے پس جو شخص پاکیزہ چیز کھانے کی طاقت رکھے وہ ایسا ہی کرے (یعنی پاکیزہ حلال چیز ہی کھائے) اور جس سے ہو سکے وہ چلو بھر (ناحق) خون بہا کر، اپنے آپ کو جنت میں جانے سے نہ روکے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2203]
5. (کیا) حاکم کو غصے کی حالت میں فیصلہ کرنا اور فتویٰ دینا جائز ہے؟
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کوئی حاکم دو آدمیوں میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک کہ وہ غصہ میں ہو۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2204]
6. لکھنے والا ایماندار اور عقلمند ہونا چاہیے۔
(کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں۔۔۔ باب: مشرکوں سے مال وغیرہ پر صلح کرنا، لڑائی چھوڑ دینا (جائز ہے) اور اس شخص کا گناہ بہت سخت ہے جو عہد کو پورا نہ کرے۔۔۔ حدیث مبارک میں ”حویصہ اور محیصہ“ نامی دونوں اشخاص کا واقعہ مفصل گزر چکا ہے۔) یہاں اتنا زیادہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (فیصلہ کرتے وقت) فرمایا: ”یا تو خیبر کے یہودی تمہارے مقتول ساتھی (عبداللہ) کی دیت دیں ورنہ لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2205]
7. امام لوگوں سے کیونکر بیعت لے؟
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی خوشی اور ناراضگی میں سننے اور اطاعت کرنے پر اور اس بات پر کہ حکومت والوں سے حکومت (حاصل کرنے) کے لیے جھگڑا نہ کریں گے اور جہاں کہیں ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کریں گے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2206]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فرماتے کہ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔ (یعنی جتنی تمہاری استطاعت ہے اتنا ہی اس پر عمل کرنا ہو گا)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2207]
8. خلیفہ بنانے کے بیان میں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے بعد کسی کو خلیفہ کیوں نامزد نہیں کرتے؟ تو انھوں نے کہا کہ اگر میں خلیفہ بناؤں تو مجھ سے پہلے جو مجھ سے بہتر تھے انھوں نے خلیفہ بنایا ہے (یعنی) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور اگر میں نہ بناؤں تو مجھ سے پہلے جو بہتر تھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، انھوں نے خلیفہ نہیں بنایا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 2208]