سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے سخت بھوک لگی تو میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ قرآن کی فلاں آیت مجھ کو پڑھ کر سناؤ۔ وہ اپنے گھر میں گئے اور وہ آیت مجھ کو پڑھ کر سنائی سمجھائی۔ میں وہاں سے (واپس) چلا، تھوڑی دور نہیں گیا تھا کہ بھوک کی وجہ سے منہ کے بل گر پڑا، دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سرہانے کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ!“ میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! وسعدیک پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور میری حالت کو پہچان گئے اور مجھے اپنے دولت خانہ (گھر) میں لے گئے اور ایک دودھ کا پیالہ میرے لیے لانے کا حکم فرمایا۔ میں نے اس میں سے پیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! اور پیو۔“ میں نے پھر پیا، فرمایا: ”اور پیو۔“ میں نے اور پیا حتیٰ کہ میرا پیٹ پھول کر پیالہ سا ہو گیا۔ پھر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور اپنی بھوک اور ان کے پاس آنے کا قصہ بیان کیا اور میں نے کہا کہ اے عمر! اللہ تعالیٰ نے (میری بھوک دور کرنے کے لیے) ایک ایسے شخص کو چنا جو تم سے زیادہ اس بات کے لائق تھا، اللہ کی قسم! جو آیت میں نے تم سے پڑھوا کر سنی، وہ آیت مجھے تم سے زیادہ ہے (یہ سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اے ابوہریرہ!) اللہ کی قسم! اگر میں اس وقت تمہیں اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلاتا تو مجھے سرخ اونٹ کے ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1887]
2. کھانے پر ”بسم اللہ“ کہنا اور داہنے ہاتھ سے کھانا چاہیے۔
حدیث نمبر: 1888
سیدنا عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا۔ کھانے کے وقت میرا ہاتھ رکابی کے چاروں طرف گھومتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے لڑکے! بسم اللہ پڑھ کر داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ۔“ اس کے بعد ہمیشہ میرے کھانے کا یہی طریقہ رہا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1888]
3. جس نے پیٹ بھر کر کھایا۔
حدیث نمبر: 1889
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت ہمیں کھجوریں اور پانی پیٹ بھر کر کھانے کو ملنے لگا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1889]
4. پتلی روٹی (کھانے کا بیان) اور کھانے کی میز پر کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1890
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتلی روٹی اور بھنی ہوئی بکری کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے مل گئے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1890]
حدیث نمبر: 1891
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی ایک روایت میں کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھوٹی چھوٹی رکابیوں (پیالیوں، ڈشوں یا پلیٹوں) میں کھایا ہو یا پتلی روٹی کبھی کھائی ہو یا کبھی (کھانے کی) میز پر کھایا ہو۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1891]
5. ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کو کافی ہے۔
حدیث نمبر: 1892
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کو کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کو کافی ہوتا ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1892]
6. مسلمان ایک آنت میں کھانا کھاتا ہے۔
حدیث نمبر: 1893
(نافع روایت کرتے ہیں کہ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس وقت تک کھانا نہ کھاتے تھے۔ جب تک کہ ایک محتاج شخص ان کے ساتھ کھانے میں نہ شریک ہوتا۔ ایک روز میں ایک محتاج کو بلا کر لایا، وہ ان کے ساتھ کھانے لگا اور بہت کھانا کھایا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خادم (نافع) سے کہا کہ اب اس کو میرے پاس نہ لانا کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے (خوب پیٹ بھر کے کھانا کھاتا ہے)۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1893]
7. تکیہ لگا کے کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1894
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے جو آپ کے پاس بیٹھا تھا، فرمایا: ”میں تکیہ لگا کر نہیں کھاتا ہوں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1894]
8. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا۔
حدیث نمبر: 1895
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کو کبھی برا نہیں کہا۔ اگر اچھا معلوم ہوتا تو کھا لیتے اور اگر اچھا معلوم نہ ہوتا تو نہ کھاتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1895]
9. ”جو“ کو (پیسنے کے بعد) منہ سے پھونکنا۔
حدیث نمبر: 1896
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں میدہ دیکھا تھا؟ وہ بولے ”بالکل نہیں“(پھر) پوچھا گیا کہ کیا تم ”جو“(کے آٹے) کو چھانتے تھے؟ تو انھوں نے کہا کہ نہیں، لیکن ہم (پیس کر) منہ سے پھونک لیا کرتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1896]