سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جتنے پیغمبر گزرے ہیں ان میں سے ہر ایک کو ایسے ایسے معجزے دیے گئے جن کو دیکھ کر لوگ ایمان لائے اور مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ وحی (قرآن) ہے جس کو اللہ نے مجھ پر وحی (کے ذریعے نازل) کیا ہے (پہلے تمام معجزوں کا اثر وقت کے ساتھ ختم ہو گیا اور یہ معجزہ (قرآن دائمی ہے پس مجھے امید ہے کہ میری امت کے لوگ قیامت کے روز تمام انبیاء کی امتوں سے زیادہ ہوں گے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1806]
حدیث نمبر: 1807
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (ان کی) وفات سے پہلے پے در پے وحی نازل فرمائی یہاں تک کہ وفات کے قریب تو بکثرت وحی نازل ہوئی پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1807]
2. قرآن مجید سات لغتوں (قراتوں) پر نازل ہوا ہے۔
حدیث نمبر: 1808
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سیدنا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے ہوئے سنا، میں نے غور سے سنا تو دیکھا کہ وہ ایسے کئی دوسرے طریقوں سے پڑھ رہے ہیں جن طریقوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ سورت نہیں پڑھائی تھی (مجھے غصہ آ گیا) قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کرتا لیکن میں نے صبر کیا، یہاں تک کہ جب انھوں نے سلام پھیر لیا تو میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال لی اور کہا کہ یہ سورت تمہیں کس نے پڑھائی ہے جو میں نے تمہیں پڑھتے ہوئے سنا؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے۔ میں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو مجھے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت دوسرے طریقوں سے سکھائی ہے پھر میں انھیں کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے انھیں سورۃ الفرقان اور ہی طریقہ سے پڑھتے سنا ہے جس سے آپ نے مجھے نہیں پڑھائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو (اور کہا کہ) اے ہشام! پڑھو تو سہی۔“ انھوں نے اس اسی طریقے سے پڑھا جیسے میں نے انھیں پڑھتے ہوئے سنا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔“ پھر فرمایا: ”اے عمر! اب تم پڑھو۔“ میں نے اس طریقے سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھایا تھا، پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی طرح نازل ہوئی ہے، بیشک یہ قرآن سات طریقوں (لغتوں) پر اترا ہے پس تم اسی طریقے سے پڑھو جو تمہیں آسان معلوم ہوا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1808]
3. جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور کیا کرتے (یعنی قرآن پڑھایا کرتے تھے)۔
حدیث نمبر: 1809
سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آہستہ (آواز) سے فرمایا: ’ جبرائیل علیہ السلام ہر سال قرآن کا ایک بار دور میرے ساتھ کیا کرتے تھے اور اس سال دو بار دور کیا، میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت آن پہنچا ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1809]
حدیث نمبر: 1810
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے قرآن کی ستر سے زیادہ سورتیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دھن مبارک سے سیکھی ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1810]
حدیث نمبر: 1811
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما ہی روایت ہے کہ وہ (شام کے شہر) حمص میں تھے، وہاں انھوں نے سورۃ یوسف پڑھی تو ایک شخص نے کہا کہ یہ سورت اس طرح نہیں اتری (جس طرح تم نے پڑھی) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے یہ سورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت اچھی پڑھی۔“ اور (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے) اس کے منہ سے شراب کی بو محسوس کی تو فرمایا: ”کیا ادھر تو کتاب اللہ کو جھٹلاتا ہے اور ادھر شراب کے مزے اڑاتا ہے؟ پھر اس کو حد لگائی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1811]
4. سورۃ الاخلاص کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1812
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی کو ((قل ھو اللہ احد))(سورۃ الاخلاص) باربار پڑھتے ہوئے سنا، پس وہ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ بیان کیا، گویا کہ وہ شخص ((قل ھو اﷲ احد)) کو (بوجہ قلت الفاظ کے ثواب میں) قلیل جانتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بیشک یہ سورۃ ((قل ھو اﷲ احد)) تہائی قرآن کے برابر ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1812]
حدیث نمبر: 1813
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے (بطور استفہام انکاری) کہا کہ کیا یہ مشکل ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایک رات میں تہائی قرآن پڑھے؟ ان (صحابہ رضی اللہ عنہم) کو یہ دشوار معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے کس کو اتنی طاقت حاصل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورۃ الاخلاص جس میں ”اللہ واحد صمد“ کی صفات مذکور ہیں، تہائی قرآن (کے برابر) ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1813]
5. معوذات (سورۃ الفلق اور الناس) کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1814
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات کو، جب (سونے کے لیے) اپنے بستر پر جاتے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں ملا کر ان پر ((قل ھو اﷲ احد))، ((قل اعوذ بربّ الفلق)) اور ((قل اعوذ بربّ النّاس)) پڑھ کر (پھونک مارتے) دم کرتے تھے پھر انھیں اپنے تمام بدن پر جہاں تک ہو سکتا پھیرتے تھے۔ پہلے اپنے سرمبارک اور چہرہ مبارک پر پھیرتے اور بعدازاں اپنے تمام اگلے جسم پر پھرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ ایسا ہی کرتے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1814]
6. قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت سکینت اور فرشتوں کا نازل ہونا۔
حدیث نمبر: 1815
سیدنا اسیدحضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات سورۃ البقرہ پڑھ رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے قریب بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا، وہ خاموش ہو گئے تو گھوڑا ٹھہر گیا، انھوں نے پھر پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا پھر بدکنے لگا وہ پھر خاموش ہو گئے تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا، وہ پھر پڑھنے لگے تو گھوڑا پھر بدکنے لگا، پھر وہ رک گئے (تلاوت چھوڑ دی) اور ان کا بیٹا یحییٰ گھوڑے کے قریب (لیٹا ہوا) تھا انھیں ڈر ہوا کہ گھوڑا اسے کچل نہ ڈالے۔ جب اسے وہاں سے ہٹا لیا اور آسمان کی طرف نگاہ کی تو آسمان دکھائی نہ دیا۔ انھوں نے صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن حضیر! تو پڑھتا رہتا، اے ابن حضیر! تو پڑھتا رہتا۔“ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! یحییٰ گھوڑے کے قریب لیٹا تھا، مجھے خوف ہوا کہ کہیں گھوڑا یحییٰ کو کچل نہ دے پس میں نے سر اٹھایا اور اس (یحییٰ) کی طرف لوٹ گیا پھر میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو ایک عجیب سی چھتری نما بادل جس میں بہت سے چراغ روشن تھے، مجھے دکھائی دی، پھر میں باہر نکل آیا یہاں تک کہ وہ میری نظر سے غائب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے معلوم ہے کہ وہ کیا تھا؟“ انھوں نے کہا ”جی نہیں“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ فرشتے تھے تیری آواز سن کر تیرے پاس آ گئے تھے، اگر تو صبح تک پڑھتا رہتا تو دوسرے لوگ بھی انھیں (کھلم کھلا) دیکھ لیتے اور وہ ان کی نظر سے غائب نہ ہوتے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1815]