سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خطبہ میں پیغمبر صالح علیہ السلام کی) اونٹنی کا جس نے اسے قتل کیا تھا اس کا ذکر فرمایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جب ان میں سے ایک نہایت بدبخت اٹھا“(الشمس: 12) کی تفسیر یہ فرمائی کہ اس اونٹنی کو (قتل کرنے کا ذمہ) ایک ایسے شخص نے اٹھایا جو ابوزمعہ (رضی اللہ عنہ) کی طرح اپنی قول میں زبردست قوی تھا اور وہ شخص بڑا خبیث اور بدبخت تھا۔“ پھر عورتوں کا ذکر فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے کہ اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح کوڑے سے مارے اور پھر شام کو ہی اس سے ہمبستر ہو۔“ پھر لوگوں کو گوز لگانے (ہوا خارج کرنے) پر ہنسنے کی ممانعت فرمائی اور فرمایا: ”ایسے کام پر جو خود بھی کرتے ہیں، لوگ کیوں ہنستے ہیں؟“ ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ شخص) زبیر بن عوام کے چچا ابوزمعہ کی طرح تھا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1801]