ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک عقدی نے بیان کیا ان سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا کہ میں مکہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہاں مجھے بخار آنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس بخار کو زمزم کے پانی سے ٹھنڈا کر، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم کی بھاپ کے اثر سے آتا ہے، اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو یا یہ فرمایا کہ زمزم کے پانی سے۔ یہ شک ہمام راوی کو ہوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3261]
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بخار جہنم کے جوش مارنے کے اثر سے ہوتا ہے اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3262]
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے ہوتا ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3263]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے ہوتا ہے اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3264]
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں حصہ ہے۔“ کسی نے پوچھا، یا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3265]
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عطاء سے سنا، انہوں نے صفوان بن یعلیٰ سے خبر دی۔ انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اس طرح آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك»(اور وہ دوزخی پکاریں گے، اے مالک!)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3266]
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ اگر آپ فلاں صاحب (عثمان رضی اللہ عنہ) کے یہاں جا کر ان سے گفتگو کرو تو اچھا ہے (تاکہ وہ یہ فساد دبانے کی تدبیر کریں) انہوں نے کہا کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے تم کو سنا کر (تمہارے سامنے ہی) بات کرتا ہوں، میں تنہائی میں ان سے گفتگو کرتا ہوں اس طرح پر کہ فساد کا دروازہ نہیں کھولتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ سب سے پہلے میں فساد کا دروازہ کھولوں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سننے کے بعد یہ بھی نہیں کہتا کہ جو شخص میرے اوپر سردار ہو وہ سب لوگوں میں بہتر ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث سنی ہے وہ کیا ہے؟ اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے سنا تھا کہ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ شخص اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا اپنی چکی پر گردش کیا کرتا ہے۔ جہنم میں ڈالے جانے والے اس کے قریب آ کر جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے، اے فلاں! آج یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ کیا تم ہمیں اچھے کام کرنے کے لیے نہیں کہتے تھے، اور کیا تم برے کاموں سے ہمیں منع نہیں کیا کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا جی ہاں، میں تمہیں تو اچھے کاموں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا۔ برے کاموں سے تمہیں منع بھی کرتا تھا، لیکن میں اسے خود کیا کرتا تھا۔ اس حدیث کو غندر نے بھی شعبہ سے، انہوں نے اعمش سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3267]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
11. بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ:
11. باب: ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
حدیث نمبر: Q3268
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَيُقْذَفُونَ سورة الصافات آية 8 يُرْمَوْنَ دُحُورًا سورة الصافات آية 9 مَطْرُودِينَ وَاصِبٌ سورة الصافات آية 9 دَائِمٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:مَدْحُورًا سورة الأعراف آية 18 مَطْرُودًا يُقَالُ مَرِيدًا سورة النساء آية 117 مُتَمَرِّدًا بَتَّكَهُ قَطَّعَهُ وَاسْتَفْزِزْ سورة الإسراء آية 64 اسْتَخِفَّ بِخَيْلِكَ سورة الإسراء آية 64 الْفُرْسَانُ وَالرَّجْلُ الرَّجَّالَةُ وَاحِدُهَا رَاجِلٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَصَحْبٍ وَتَاجِرٍ وَتَجْرٍ لأَحْتَنِكَنَّ سورة الإسراء آية 62 لَأَسْتَأْصِلَنَّ قَرِينٌ سورة الصافات آية 51 شَيْطَانٌ.
اور مجاہد نے کہا (سورۃ والصافات میں) لفظ «يقذفون» کا معنی پھینکے جاتے ہیں (اسی سورۃ میں) «دحورا» کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں۔ اسی سورۃ میں لفظ «واصب» کا معنی ہمیشہ کا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ الاعراف میں) لفظ «مدحورا» کا معنی دھتکارا ہوا، مردود (اور سورۃ نساء میں) «مريدا» کا معنی متمرد و شریر کے ہیں۔ اسی سورۃ میں «فليبتكن» «بتك» سے نکلا ہے۔ یعنی چیرا، کاٹا۔ (سورۃ بنی اسرائیل میں) «واستفزز» کا معنی ان کو ہلکا کر دے۔ اسی سورۃ میں «خيل» کا معنی سوار اور «رجل» یعنی پیادے۔ یعنی «رجالة» اس کا مفرد «راجل» جیسے «صحب» کا مفرد «صاحب» اور «تجر» کا مفرد «تاجر» اسی سورۃ میں لفظ «لأحتنكن» کا معنی جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔ سورۃ والصافات میں لفظ «قرين» کے معنی شیطان کے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: Q3268]
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹے تھے) جادو ہوا تھا۔ اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھے ہشام نے لکھا تھا، انہوں نے اپنے والد سے سنا تھا اور یاد رکھا تھا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا۔ آپ کے ذہن میں بات ہوتی تھی کہ فلاں کام میں کر رہا ہوں حالانکہ آپ اسے نہ کر رہے ہوتے۔ آخر ایک دن آپ نے دعا کی پھر دعا کی کہ اللہ پاک اس جادو کا اثر دفع کرے۔ اس کے بعد آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہوا اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ تدبیر بتا دی ہے جس میں میری شفا مقدر ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک تو میرے سر کی طرف بیٹھ گئے اور دوسرا پاؤں کی طرف۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا، انہیں بیماری کیا ہے؟ دوسرے آدمی نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ انہوں نے پوچھا، جادو ان پر کس نے کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم یہودی نے، پوچھا کہ وہ جادو (ٹونا) رکھا کس چیز میں ہے؟ کہا کہ کنگھے میں، کتان میں اور کھجور کے خشک خوشے کے غلاف میں۔ پوچھا، اور یہ چیزیں ہیں کہاں؟ کہا بئر دوران میں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور واپس آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، وہاں کے کھجور کے درخت ایسے ہیں جیسے شیطان کی کھوپڑی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، وہ ٹونا آپ نے نکلوایا بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خود شفا دی اور میں نے اسے اس خیال سے نہیں نکلوایا کہ کہیں اس کی وجہ سے لوگوں میں کوئی جھگڑا کھڑا کر دوں۔ اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3268]
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید) نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب کوئی تم میں سے سویا ہوا ہوتا ہے، تو شیطان اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے خوب اچھی طرح سے اور ہر گرہ پر یہ افسون پھونک دیتا ہے کہ ابھی بہت رات باقی ہے۔ پڑا سوتا رہ۔ لیکن اگر وہ شخص جاگ کر اللہ کا ذکر شروع کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز فجر پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور صبح کو خوش مزاج خوش دل رہتا ہے۔ ورنہ بدمزاج سست رہ کر وہ دن گزارتا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3269]