ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں حاضر خدمت تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا، جو رات بھر دن چڑھے تک پڑا سوتا رہا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسا شخص ہے جس کے کان یا دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3270]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے منصور نے ان سے سالم بن ابی الجعد نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آتا ہے اور یہ دعا پڑتا ہے «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا.»”اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے اللہ! ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو کچھ ہمیں تو دے (اولاد) اس سے بھی شیطان کو دور رکھ۔“ پھر اگر ان کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3271]
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آئے تو نماز نہ پڑھو جب تک وہ پوری طرح ظاہر نہ ہو جائے اور جب غروب ہونے لگے تب بھی اس وقت تک کے لیے نماز چھوڑ دو جب تک بالکل غروب نہ ہو جائے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3272]
اور نماز سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھو، کیونکہ سورج شیطان کے سر کے یا شیطانوں کے سر کے دونوں کونوں کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔ عبدہ نے کہا میں نہیں جانتا ہشام نے شیطان کا سر کہا یا شیطانوں کا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3273]
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے حمید بن بلال نے، ان سے ابوصالح نے ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم میں سے نماز پڑھنے میں کسی شخص کے سامنے سے کوئی گزرے تو اسے گزرنے سے روکے، اگر وہ نہ رکے تو پھر روکے اور اگر اب بھی نہ رکے تو اس سے لڑے وہ شیطان ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3274]
اور عثمان بن ہیشم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صدقہ فطر کے غلہ کی حفاظت پر مجھے مقرر کیا، ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے غلہ لپ بھربھر کر لینے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے آخر تک حدیث بیان کی، اس (چور) نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹنے لگو تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ایک نگہبان مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے قریب صبح تک نہ آ سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات تو اس نے سچی کہی ہے اگرچہ وہ خود جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3275]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3276]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے تیمیین کے مولیٰ ابن ابی انس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں کس دیا جاتا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3277]
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا (نوف بکالی کہتا ہے کہ خضر کے پاس جو موسیٰ گئے تھے وہ دوسرے موسیٰ تھے) تو انہوں نے کہا کہ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر (یوشع بن نون) سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لا، اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے جب ہم نے چٹان پر پڑاؤ ڈالا تھا تو میں مچھلی وہیں بھول گیا (اور اپنے ساتھ نہ لا سکا) اور مجھے اسے یاد رکھنے سے صرف شیطان نے غافل رکھا اور موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکن معلوم نہیں کی جب تک اس حد سے نہ گزر لیے، جہاں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3278]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے تھے کہ ہاں! فتنہ اسی طرف سے نکلے گا جہاں سے شیطان کے سر کا کونا نکلتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3279]