1. اللہ تعالیٰ کے قول ”اللہ کا شریک کسی کو مت بناؤ! حالانکہ تم جانتے ہو“ (سورۃ البقرہ: 22)۔
حدیث نمبر: 1713
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو کسی کو اللہ کا شریک بنائے حالانکہ اس (اللہ) نے تجھے پیدا کیا ہے۔“ میں نے کہا بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔ میں نے پوچھا پھر اس کے بعد کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ اس کو کھلانا پڑے گا۔“(یہیں سے فیملی پلاننگ کا رد ہوتا ہے) میں نے پوچھا پھر اس کے بعد کون سا گناہ؟ فرمایا: ”اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1713]
2. اللہ تعالیٰ کے قول ”اور ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا“ کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1714
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھنبی (جو خود رو ہوتی ہے)”من“ کی قسم میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے دوا ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1714]
3. اللہ تعالیٰ کے قول ”اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں داخل ہو جاؤ“ کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1715
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا ”اور شہر کے دروازے میں جھک کر سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے حطّۃ کہو“(یعنی گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں) تو وہ گھسٹ گھسٹ کر اور بجائے حطّۃ کے حنطۃ، حبّہ فی شعرۃٍ (دانہ بالی کے اندر) کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1715]
4. اللہ تعالیٰ کے قول ”جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں“ (سورۃ البقرہ: 118) کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1716
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم سب میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بڑے قاری ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے عمدہ قاضی ہیں اور ہم سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کی ایک بات نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تو قرآن کی کسی آیت کی تلاوت نہ چھوڑوں گا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور بیشک قرآن میں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ”جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں تو ....“(سورۃ البقرہ: 118)[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1716]
5. اللہ تعالیٰ کا قول ”یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے (نہیں بلکہ) وہ پاک ہے“ (سورۃ البقرہ: 116)۔
حدیث نمبر: 1717
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ”بنی آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اس کو یہ نہ چاہیے تھا اور بنی آدم نے مجھے گالی دی اور یہ بات اس کو زیب نہ دیتی تھی۔ جھوٹا تو یوں بنایا کہ وہ کہتا ہے کہ میں ان کو مرنے کے بعد قیامت کے دن اصلی حالت پر نہیں اٹھا سکتا اور گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ میں اس بات سے مبرا اور پاک ہوں کہ کسی کو اپنی بیوی یا اولاد بناؤں (سب میرے بندے اور غلام ہیں)۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1717]
6. اللہ تعالیٰ کے قول ”تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ“ (سورۃ البقرہ: 125) کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1718
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (میری رائے) تین باتوں میں اللہ کے حکم کے موافق ہوئی یا یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتوں میں میرے ساتھ اتفاق کیا۔ (پہلے یہ کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اگر آپ مقام ابراہیم پر (طواف کے بعد) نماز پڑھا کریں تو بہتر ہو، (اسی کے موافق اللہ نے یہ آیت ”تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔“ اتاری) اور (دوسری یہ کہ) میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہر قسم کے لوگ آتے جاتے ہیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم امہات المؤمنین (اپنی ازواج مطہرات) کو پردہ کا حکم دے دیں تو اچھا ہے تو اس کے موافق اللہ نے حجاب کی آیت ((یٰآیّھا النّبیّ قل لا زواجک .... الخ)) نازل کی۔ (تیسری یہ کہ) جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج پر غصہ ہو گئے تو میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ اللہ اپنے رسول کو تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلہ میں عطا کر دے گا یہاں تک کہ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) پاس آیا تو انھوں نے کہا ”اے عمر! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو نصیحت نہیں کر سکتے جو تم نصیحت کرنے آئے ہو؟“ تو اس وقت (میرے کہنے کے موافق) اللہ نے یہ آیت اتاری ”اگر وہ (پیغمبر) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انھیں ان کا رب! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا جو اسلام والیاں ....۔“(سورۃ التحریم: 5)[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1718]
7. اللہ تعالیٰ کا قول ”کہہ دو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف نازل کی گئی“ (سورۃ البقرہ: 136)۔
حدیث نمبر: 1719
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اہل کتاب یعنی یہودی تورات کو عبرانی زبان میں پڑھا کرتے تھے اور اس کا ترجمعہ عربی زبان میں مسلمانوں کو سمجھاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی باتوں کو بالکل سچ بھی نہ مان لو (اس لیے کہ انھوں نے تورات میں تحریف کر لی ہے) اور بالکل جھوٹ بھی نہ کہو (اس لیے کہ شاید بعض آیات بلا تحریف بھی ہوں) بلکہ مجملاً یہ کہو کہ ”کہہ دو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف نازل کی گئی۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1719]
8. اللہ تعالیٰ کے قول ”اسی طرح ہم نے تمہیں عادل امت بنایا تاکہ تم قیامت کے دن دوسری امتوں پر گواہی دو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں“ (سورۃ البقرہ: 143) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1720
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن نوح علیہ السلام بلائے جائیں گے، وہ عرض کریں گے ”میں حاضر ہوں اے پروردگار، جو حکم ہو بجا لاؤں“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟“ وہ کہیں گے ”ہاں“ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ نوح (علیہ السلام) نے تم کو میرا حکم پہنچایا تھا (یا نہیں؟) تو وہ کہیں گے کہ ”ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ ”نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا ”کوئی تیرا گواہ ہے؟“ وہ عرض کریں گے ”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی امت کے لوگ گواہ ہیں۔“ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا ”اور پیغمبر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ بنیں گے۔“ پس اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ ”ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1720]
9. اللہ تعالیٰ کے قول ”پھر تم اس جگہ سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں“ (سورۃ البقرہ: 199) کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1721
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ(دور جاہلیت میں) قریش اور جو لوگ ان کے طریقہ پر چلتے تھے، مزدلفہ میں ٹھہرا کرتے تھے اور ان لوگوں کو حمس کہتے (اپنے آپ کو معزز سمجھتے تھے) باقی تمام اہل عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا: ”پہلے عرفات میں جائیں اور وہاں ٹھہریں پھر وہاں سے لوٹ کر (مزدلفہ میں) آئیں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1721]
10. اللہ تعالیٰ کے قول ”اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی عطا فرما .... الآیۃ“ (سورۃ البقرہ: 201) کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1722
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یوں دعا فرمایا کرتے تھے: ”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1722]