سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے جو کہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے، روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(رحمت کے) فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جہاں کتا اور (جانداروں) کی تصویریں ہوں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1609]
حدیث نمبر: 1610
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، ان کے خاوند خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور جنگ بدر میں بھی شریک تھے، مدینہ میں فوت ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان کے سامنے حفصہ (رضی اللہ عنہا) کا ذکر کیا اور کہا کہ (وہ بیوہ ہیں) اگر تم چاہو تو میں ان کا نکاح تم سے کر دوں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں سوچ کر بتاؤں گا، پس میں کئی راتوں تک ٹھہرا رہا۔ پھر (ان سے ملا تو) انھوں نے کہا کہ ابھی میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ ان دنوں (دوسرا) نکاح نہ کروں۔ پھر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ اگر تم چاہو تو میں حفصہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح تم سے کر دوں؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور مجھے کچھ جواب نہ دیا تو مجھے ان پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ غصہ آیا، میں اور کئی راتیں ٹھہرا رہا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے ملے تو کہا کہ شاید تمہیں غصہ آیا ہو گا۔ جب تم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا اور میں نے تمہیں کچھ جواب نہ دیا تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں (آیا) تھا۔ انھوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے تم کو جواب نہ دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا (کہ کیا میں اس سے نکاح کر لوں) اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کرنے کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بیشک میں ان سے نکاح کر لیتا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1610]
حدیث نمبر: 1611
سیدنا ابومسعود البدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی رات کو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات پڑھ لے وہ اسے کافی ہو جاتی ہیں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1611]
حدیث نمبر: 1612
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارہ میں فرمایا: ”اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان ناپاک لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کے کہنے پر انھیں چھوڑ دیتا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1612]
7. بنی نضیر کے یہودیوں کا قصہ اور ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دھوکا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1613
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی نضیر اور بنی قریظہ نے (خلاف معاہدہ) لڑائی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کو جلاوطن کر دیا اور بنی قریظہ پر احسان کر کے رہنے دیا۔ جب قریظہ نے مسلمانوں پر (دوبارہ) چڑھائی کی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردوں کو مار ڈالا اور ان کی عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا مگر کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امن دیا، وہ مسلمان ہو گئے، پھر تمام یہودی مدینہ بنی قینقاع کو جو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی قوم کے تھے اور یہود بنی حارثہ اور باقی یہود مدینہ (سب کو) جلاوطن کر دیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1613]
حدیث نمبر: 1614
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے درخت جلا دیے اور (بعضے) کاٹ دیے جو کہ بویرہ میں تھے تو یہ آیت اتری: ”جو درخت تم نے کاٹ دیئے یا انھیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے ہے ....۔“(سورۃ الحشر: 5)[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1614]
حدیث نمبر: 1615
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا آٹھواں حصہ مال غنیمت میں سے مانگنے کو بھیجا۔ میں ان کو منع کرتی تھی اور کہتی تھی کہ کیا تمہیں اللہ کا ڈر نہیں ہے؟ کیا تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول معلوم نہیں ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں، جو کچھ ہم چھوڑیں، وہ صدقہ ہے۔ اس سے اپنی ذات مراد تھی، صرف آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس مال میں سے کھا لے۔ پھر سب ازواج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے کہنے سے (اس حصہ کو طلب کرنے سے) رک گئیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1615]
8. یہودی کعب بن اشرف کے قتل کا بیان۔
حدیث نمبر: 1616
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے، اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے؟ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ کو پسند ہے کہ اسے مار ڈالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ تو انھوں نے عرض کی کہ مجھے اجازت دیجئیے تاکہ میں کچھ بات بناؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے اختیار ہے۔“ چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور ہمیں ستا رکھا ہے، میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے۔ اللہ کی قسم! آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم اس کا اتباع کر چکے، اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس ایک وسق یا دو وسق قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انھوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انھوں نے جواب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے رکھ دیں؟ کیونکہ تو عربوں میں بےانتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انھیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ جو ان سے لڑے گا یہ طعنہ دے گا تو ایک وسق یا دو وسق پر گروی رکھا گیا تھا اور یہ ہم پر عار ہے لیکن، ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے۔ پس انھوں نے کعب سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت کعب کے پاس آئے اور اپنے ہمراہ ابونائلہ، کعب کے دودھ شریک بھائی کو لے آئے۔ کعب نے انھیں قلعہ کے پاس بلا لیا اور خود قلعہ سے نیچے اتر کر ان کے پاس آنے لگا۔ اس کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جواب دیا کہ محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) اور میرا بھائی ابونائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں) عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ہے اور شریف آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لئے بلایا جائے تو فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے۔ (ابوعمرو کی روایت کے علاوہ دوسری روایت میں ہے کہ وہ) ابوعبس بن جبر اور حارث بن اوس اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہم تھے۔ (عمرو) کہتے ہیں کہ جن دو آدمیوں کو وہ ساتھ لائے تھے ان سے کہہ دیا تھا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو گے کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے تو تم جلدی سے اسے مار دینا۔ (ایک دفعہ راوی عمرو نے) کہا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں تمہیں سونگھاؤں گا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے آج کی خوشبو سے اچھی کبھی کوئی خوشبو نہیں دیکھی۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے پاس عرب کی عورتوں میں سب سے زیادہ معطر رہنے والی اور سارے عرب کی باکمال عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا اور اپنے ساتھیوں کو سنگھایا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا، ہاں ہے۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا تب انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو۔ چنانچہ انھوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی خوشخبری سنائی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1616]
9. ابورافع یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا بیان اور بعض نے کہا کہ اس کا نام سلام بن ابی الحقیق ہے۔
حدیث نمبر: 1617
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند انصار کو ابورافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا اور ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذا دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقصان پر کمربستہ رہتا تھا اور وہ اپنے اس قلعہ میں جو حجاز میں تھا، رہتا تھا۔ جب یہ لوگ اس کے قریب پہنچے، اس وقت سورج ڈوب چکا تھا اور لوگ اپنے مویشیوں کو شام کے وقت واپس لا چکے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم یہاں بیٹھو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل ملا کر قلعہ کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں۔ پھر وہ قلعہ کی طرف چلے، یہاں تک کہ دروازہ کے قریب پہنچ گئے۔ پھر اپنے آپ کو کپڑے میں اس طرح چھپایا جیسے کوئی قضائے حاجت کے لیے بیٹھتا ہے۔ قلعہ والے اندر جا چکے تھے۔ دربان نے عبداللہ کو آواز دی کہ اے اللہ کے بندے! اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ، کیونکہ میں دروازہ بند کرتا ہوں۔ میں اندر چلا گیا۔ جب سب آ چکے، دربان نے دروازہ بند کر کے کنجیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کنجیاں لینے کا ارادہ کیا پھر انھیں لے کر دروازہ کھولا۔ ابورافع کے پاس کہانیاں ہوا کرتی تھیں اور وہ اپنے بالاخانے پر رہتا تھا۔ جب اس کے پاس سے کہانی والے چلے گئے تو میں بالاخانے پر چڑھا۔ میں جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی جانب سے بند کر لیتا اور (اپنے دل میں کہتا کہ) اگر لوگ مجھ سے واقف بھی ہو جائیں گے تو مجھ تک ابورافع کے مارنے سے پہلے نہ آ سکیں گے۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک اندھیرے مکان میں اپنے بچوں میں سو رہا ہے۔ مجھے اس کا ٹھکانہ معلوم نہ تھا۔ میں نے ابورافع کہہ کر آواز دی، اس نے جواب دیا کون ہے؟ میں آواز کی طرف لپکا اور آواز پر تلوار کی ایک ضرب لگائی، میرا دل دھک دھک کر رہا تھا، وار خالی گیا اور وہ چلانے لگا۔ میں مکان سے نکل کر تھوڑی دیر بعد پھر اندر گیا اور میں نے (آواز بدل کر) کہا کہ اے ابورافع! یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے کہا کہ تیری ماں پر مصیبت پڑے، کسی نے ابھی ابھی مجھے تلوار ماری تھی۔ یہ سنتے ہی میں نے ایک بڑا وار کیا اگرچہ اب اس کو کاری زخم آ چکا تھا۔ لیکن وہ مرا نہیں تھا آخر میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی اور زور سے دبایا تو تلوار اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ جب مجھے یقین ہوا کہ میں نے اسے مار دیا تو پھر میں ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا۔ سیڑھیوں پر پہنچ کر اتر رہا تھا، میں نے سمجھا کہ اب زمین آ گئی، چاندنی رات میں (دھم سے) نیچے گر پڑا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں اسے اپنے عمامہ سے پٹی باندھ کر نکلا اور دروازہ پر یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ آج رات اس وقت تک نہ نکلوں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ کیا میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ جس وقت مرغ نے اذان دی تو اس وقت ناعی (موت کی خبر سنانے والا) دیوار پر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ میں ابورافع، اہل حجاز کے سوداگر کے مرنے کی خبر سناتا ہوں۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے آ کر کہا کہ جلدی چلو، اللہ نے ابورافع کو قتل کرا دیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر یہ قصہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا پاؤں پھیلاؤ۔ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ ایسا ہو گیا جیسے مجھے کبھی اس کی شکایت ہی نہ تھی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1617]
10. غزوہ احد کا بیان۔
حدیث نمبر: 1618
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے احد کے دن (غزوہ احد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں (اللہ کی راہ میں) مارا جاؤں تو کہاں (جاؤں گا؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(تو) جنت میں (جائے گا)۔“ اس نے اپنے ہاتھ کی کھجوریں (تک) پھینک دیں اور اتنا لڑا کہ شہید ہو گیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1618]