نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل مناقب
36. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت (پیغمبری) کا بیان۔ (اور آپ کا نام) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ہے) بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانہ خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزاربن معد بن عدنان۔
حدیث نمبر: 1580
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چالیس سال کی عمر میں وحی نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ برس رہے پھر ہجرت کا حکم ہوا تو مدینہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں دس سال رہے، پھر وفات ہو گئی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1580]
37. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے مشرکین مکہ کے ہاتھوں جو تکالیف اٹھائیں، ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1581
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ مشرکوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذا کون سی دی تھی؟ تو انھوں نے کہا کہ اس دوران کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حطیم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے اپنا کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا زور سے گھونٹا، اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور انھوں نے اس کا کندھا پکڑ کر اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ گیا اور کہا ”کیا تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے .... پوری آیت۔“(المومن: 28)[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1581]
38. جنوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1582
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو اور استنجاء کے لیے پانی کی چھاگل اٹھا کر چلتے تھے .... یہ حدیث (کتاب: وضو کا بیان۔۔۔ باب: ڈھیلوں سے استنجاء کرنا) میں گزر چکی ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1582]
حدیث نمبر: 1583
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتلایا کہ جنوں نے رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن سنا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک (ببول کے) درخت نے ان کے بارے میں بتایا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1583]
حدیث نمبر: 1584
اور اس روایت میں (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) اتنا زیادہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس نصیبین جنوں کے قاصد آئے اور وہ کتنے اچھے جن تھے، انھوں نے مجھ سے زادراہ مانگا تو میں نے ان کے لیے اللہ سے دعا کی کہ جب یہ کسی ہڈی یا گوبر پر سے گزریں تو انھیں اس پر سے کھانا ملے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1584]
39. مسلمانوں کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1585
سیدہ ام خالد بنت خالد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں حبشہ سے (لوٹ کر مدینہ) آئی تو اس وقت میں ایک (کمسن) لڑکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر مجھے عنایت فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نقشوں (بیل بوٹوں) پر ہاتھ پھیرنے لگے اور سنہ سنہ (سنہ حبشی زبان کا لفظ) فرمانے لگے یعنی اچھا اچھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1585]
40. ابوطالب کے قصہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1586
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ اپنے چچا کے کیا کام آئے؟ وہ آپ کو بچاتے تھے اور آپ کی خاطر غصے ہوا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ٹخنوں تک آگ میں ہیں اور اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی سب سے نچلی تہہ میں ہوتے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1586]
حدیث نمبر: 1587
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (ابوطالب) کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میری شفاعت سے شاید انھیں اتنا فائدہ ہو کہ وہ کم گہری آگ میں ڈالے جائیں، جو ٹخنوں تک پہنچے جس سے ان کا دماغ جوش مارتا رہے گا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1587]
41. بیت المقدس تک جانے کا قصہ۔
حدیث نمبر: 1588
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جب قریش نے مجھے (معراج کے بارے میں) جھٹلایا تو میں حطیم (کعبہ) میں کھڑا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا (حجاب اٹھا دیا) پس میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کی علامات بیان کرنا شروع کر دیں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1588]
42. معراج کا قصہ۔
حدیث نمبر: 1589
سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (صحابہ) سے معراج کی رات کا قصہ بیان فرمایا: ”میں حطیم (یا یوں کہا کہ) حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک آنے والا (فرشتہ) آیا تو اس نے یہاں سے یہاں تک چیر ڈالا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سینے کے سرے سے ناف تک (چیرا)۔ میرا دل نکالا پھر ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا اس سے میرا دل دھویا گیا پھر اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا پھر میرے لیے ایک سفید جانور لایا گیا جو خچر سے ذرا نیچا اور گدھے سے کچھ اونچا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا ابوحمزہ! کیا یہ جانور براق تھا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”) وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، پس میں اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ چلے یہاں تک کہ آسمان دنیا پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ یہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام ہوں، کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ آدم علیہ السلام وہاں ہیں جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کرو، میں نے انہیں سلام کیا تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ کیا اچھا بیٹا اور کیا اچھا نبی ہے، پھر (ہم) اوپر چڑھے یہاں تک کہ دوسرے آسمان تک پہنچے تو وہاں بھی جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں خالہ زاد بھائی بیٹھے ہوئے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ مرحبا اچھا بھائی ہے اور اچھا پیغمبر ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ اوپر تیسرے آسمان تک چڑھے تو وہاں بھی جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ یہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں یوسف علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ یوسف علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ یوسف علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے سلام کا جواب دیا، پھر کہا کہ مرحبا اچھا بھائی ہے اور اچھا نبی ہے، پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ چوتھے آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا! خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا۔ میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں ادریس علیہ السلام ہیں، جبرائیل نے کہا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا، انھوں نے جواب دیا پھر کہا کہ اچھے بھائی اور اچھے نبی کو مرحبا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ پانچویں آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں)۔ کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا۔ میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں ہارون علیہ السلام ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ ہارون ہیں، انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا پھر کہا کہ مرحبا کیا اچھا بھائی ہے اور کیا اچھا نبی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ چھٹے آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا! خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا پھر کہا کہ مرحبا! کیا اچھا بھائی ہے اور کیا اچھا نبی ہے۔ جب میں وہاں سے آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ میں اس لیے روتا ہوں کہ یہ لڑکا میرے بعد (دنیا میں) نبی بنا کر بھیجا گیا اور اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ (تعداد میں) جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ ساتویں آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں)۔ کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا۔ میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں ابراہیم علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا اور کہا کہ مرحبا کیا اچھا بیٹا ہے اور کیا اچھا نبی۔ پھر مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک بلند کیا گیا تو (دیکھا کہ) اس کے پھل (بیر)(مدینہ کے قریب مقام) ہجر کے مٹکوں کے برابر کے ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ سدرۃالمنتہیٰ ہے۔ (میں نے دیکھا کہ) وہاں (اس کی جڑ) سے چار نہریں نکل رہی ہیں، دو نہریں بند (ڈھانپی ہوئی) ہیں اور دو کھلی (ظاہر) ہیں۔ میں نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کیسی نہریں ہیں؟ انھوں نے کہا کہ بند نہریں تو جنت میں (بہہ رہی) ہیں اور کھلی دو نہریں (دنیا میں) نیل اور فرات (ہیں)، پھر مجھے بیت المعمور بلند کر کے دکھایا گیا، جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا اور ایک دودھ کا اور ایک شہد کا بھرا ہوا لایا گیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے (کر پی) لیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ اسلام کی فطرت ہے جس پر تم ہو اور تمہاری امت ہے پھر مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پس میں لوٹ کر آیا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا کہ تجھے کیا حکم ملا؟ میں نے کہا کہ ہر دن رات میں پچاس نمازوں کا حکم ہوا ہے، انھوں نے کہا کہ بیشک تمہاری امت ہر روز پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکتی اور اللہ کی قسم میں ان لوگوں پر تجربہ کر چکا ہوں اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت زیادہ کوشش کی ہے، پس تم اپنے رب کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کرو۔ پس میں لوٹا اور اللہ نے دس نمازیں مجھے معاف کر دیں۔ پھر میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر ویسا ہی کہا (جیسا پہلے کہا تھا) تو میں پھر لوٹ کر گیا تو دس نمازیں اور کم کر دی گئیں۔ میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر ویسا ہی کہا تو میں پھر لوٹ گیا تو دس نمازیں اور کم کر دی گئیں پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے ویسا ہی کہا تو میں پھر لوٹ کر گیا اور دس نمازیں اور کم کر دی گئیں اور مجھے ہر روز دس نمازوں (کے پڑھنے) کا حکم دیا گیا پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر ویسا ہی کہا تو میں پھر لوٹ گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازوں (کے پڑھنے) کا حکم دیا گیا، میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انھوں نے کہا کہ کیا حکم ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم ہوا ہے تو انھوں نے کہا کہ بیشک تمہاری امت سے ہر روز پانچ نمازیں نہ پڑھی جا سکیں گی اور بیشک میں ان لوگوں پر تجربہ کر چکا ہوں اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت زیادہ کوشش کی ہے پس تم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کرو تو میں نے کہا کہ میں اپنے پروردگار سے تخفیف کا سوال کرتے کرتے شرمندہ ہو گیا، میں اسی پر راضی ہوں اور (اپنے رب کا حکم) مان لیتا ہوں۔ پھر فرمایا: ”جب میں آگے بڑھا تو ایک پکارنے والے نے پکارا کہ جو میرا ٹھہراؤ تھا وہ میں نے جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کی۔ (یعنی لوگ پڑھیں گے پانچ نمازیں اور انھیں ثواب پچاس کا ملے گا)۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث پہلے کتاب الصلاۃ میں بھی گزر چکی ہے اور ان میں سے ایک روایت کے آخر میں جو باتیں ہیں وہ دوسری روایت میں نہیں ملتیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1589]