ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا عمرو سے ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ کچھ صحابہ نے جنگ احد کے دن صبح کے وقت شراب پی (راوی حدیث) سے پوچھا گیا کیا اسی دن کے آخری حصے میں (ان کی شہادت ہوئی) تھی جس دن انہوں نے شراب پی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2815]
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں سفیان بن عیینہ نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے محمد بن منکدر سے سنا ‘ انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے گئے (احد کے موقع پر) اور کافروں نے ان کے ناک کان کاٹ ڈالے تھے ‘ ان کی نعش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا چہرہ کھولنا چاہا لیکن میری قوم کے لوگوں نے مجھے منع کر دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے پیٹنے کی آواز سنی (تو دریافت فرمایا کہ کس کی آواز ہے؟) لوگوں نے بتایا کہ عمرو کی لڑکی ہیں (شہید کی بہن) یا عمرو کی بہن ہیں (شہید کی چچی شک راوی کو تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں رو رہی ہیں یا (آپ نے فرمایا کہ) روئیں نہیں ملائکہ برابر ان پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے صدقہ سے پوچھا کیا حدیث میں یہ بھی ہے کہ (جنازہ) اٹھائے جانے تک تو انہوں نے بتایا کہ سفیان نے بعض اوقات یہ الفاظ بھی حدیث میں بیان کئے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2816]
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا میں نے قتادہ سے سنا ‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بھی ایسا نہ ہو گا جو جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرے ‘ خواہ اسے ساری دنیا مل جائے سوائے شہید کے۔ اس کی یہ تمنا ہو گی کہ دنیا میں دوبارہ واپس جا کر دس مرتبہ اور قتل ہو (اللہ کے راستے میں) کیونکہ وہ شہادت کی عزت وہاں دیکھتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2817]
اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا یہ پیغام دیا ہے کہ ہم میں سے جو بھی (اللہ کے راستے میں) قتل کیا جائے ‘ وہ سیدھا جنت میں جائے گا اور عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے (کفار کے) مقتول دوزخی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کیوں نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: Q2818]
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا موسیٰ بن عقبہ سے ‘ ان سے عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ سالم ابوالنضر نے سالم عمر بن عبیداللہ کے کاتب بھی تھے بیان کیا کہ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے عمر بن عبیداللہ کو لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یقین جانو جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ اس روایت کی متابعت اویسی نے ابن ابی الزناد کے واسطہ سے کی ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2818]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
23. بَابُ مَنْ طَلَبَ الْوَلَدَ لِلْجِهَادِ:
23. باب: جو جہاد کرنے کے لیے اللہ سے اولاد مانگے اس کی فضیلت۔
لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن ہرمز نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے فرمایا آج رات اپنی سو یا (راوی کو شک تھا) ننانوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک ایک شہسوار جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی نے کہا کہ ان شاءاللہ بھی کہہ لیجئے لیکن انہوں نے ان شاءاللہ نہیں کہا۔ چنانچہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان کے بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر سلیمان علیہ السلام اس وقت ان شاءاللہ کہہ لیتے تو (تمام بیویاں حاملہ ہوتیں اور) سب کے یہاں ایسے شہسوار بچے پیدا ہوتے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2819]
ہم سے احمد بن عبدالملک بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ثابت بنانی سے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین (خوبصورت) سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ فیاض تھے ‘ مدینہ طیبہ کے تمام لوگ (ایک رات) خوف زدہ تھے (آواز سنائی دی تھی اور سب لوگ اس کی طرف بڑھ رہے تھے) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک گھوڑے پر سوار سب سے آگے تھے (جب واپس ہوئے تو) فرمایا اس گھوڑے کو (دوڑنے میں) ہم نے سمندر پایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2820]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمر بن جبیر بن مطعم نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی کہا کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ کے ساتھ اور بہت سے صحابہ بھی تھے۔ وادی حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ کچھ (بدو) لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ بالآخر آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک ببول کے کانٹے میں الجھ گئی تو ان لوگوں نے اسے لے لیا (تاکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کچھ عنایت فرمائیں تو چادر واپس کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور فرمایا میری چادر مجھے دے دو ‘ اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو میں تم میں تقسیم کر دیتا ‘ مجھے تم بخیل نہیں پاؤ گے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل پاؤ گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2821]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالمالک بن عمیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے عمرو بن میمون اودی سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کو یہ کلمات دعائیہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے معلم بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے اور فرماتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بك من فتنة الدنيا، وأعوذ بك من عذاب القبر»”اے اللہ! بزدلی سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں ‘ اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عمر کے سب سے ذلیل حصے (بڑھاپے) میں پہنچا دیا جاؤں اور تیری پناہ مانگتا ہوں میں دنیا کے فتنوں سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔“ پھر میں نے یہ حدیث جب مصعب بن سعد سے بیان کی تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2822]
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی سے ‘ بزدلی اور بڑھاپے کی ذلیل حدود میں پہنچ جانے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2823]