الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مختصر صحيح بخاري کل احادیث (2230)
حدیث نمبر سے تلاش:

مختصر صحيح بخاري
آغار تخلیق کا بیان
حدیث نمبر: 1358
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے: تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں تمام کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنے ہی عرصے تک منجمد خون رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت (لوتھڑا) کا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ، فرشتہ بھیجتا ہے۔ اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیا جاتا ہے (1) اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل (2) اس کا رزق (3) اس کی عمر (4) اور (یہ لکھ دے کہ) شقی ہے یا سعید (یعنی خوش بخت ہے یا بدبخت) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ پس بیشک تم میں سے کوئی شخص (ایسا) عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز (کا فاصلہ) رہ جاتا ہے پھر اس پر (اللہ کا) نوشتہ (لکھی ہوئی تقدیر) غالب آ جاتا ہے اور وہ دوزخیوں والے عمل کرنے لگتا ہے اور کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز (کا فاصلہ) باقی رہ جاتا ہے پھر اس پر اللہ کا نوشتہ (تقدیر) غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1358]
حدیث نمبر: 1359
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں شخص کو دوست رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس کو دوست رکھو۔ پس جبرائیل (علیہ السلام) اس کو دوست رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام آسمان والوں میں اعلان کر دیتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص کو دوست رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس کو دوست رکھو چنانچہ اس کو تمام آسمان والے دوست رکھتے ہیں پھر زمین (والوں) میں اس کی قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1359]
حدیث نمبر: 1360
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: فرشتے بادل میں اترتے ہیں اور آسمان پر، اللہ تعالیٰ کے جو حکم احکام (اس دن ہوئے) ان کا ذکر کرتے ہیں۔ پس شیاطین چھپ کر اسے سن لیتے ہیں اور کاہنوں سے آ کر بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کچھ جھوٹ بھی اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1360]
حدیث نمبر: 1361
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے (متعین) ہوتے ہیں اور وہ سب سے پہلے جو آیا اس کا، پھر اس کے بعد جو آیا اس کا (اسی طرح برابر سب کے نام) لکھتے ہیں۔ پھر جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو وہ صحیفوں کو لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے کے لیے آ جاتے ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1361]
حدیث نمبر: 1362
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان (بن ثابت) رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: تم مشرکوں کی ہجو کرو اور جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1362]
حدیث نمبر: 1363
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! یہ جبرائیل علیہ السلام تم کو سلام کہتے ہیں۔ تو انھوں نے کہا وعلیہ السلام رحمتہ اللہ وبرکاتہ، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھتی۔ ترٰی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد رکھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1363]
حدیث نمبر: 1364
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا: جس قدر اب تم ہمارے پاس آتے ہو اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں پس یہ آیت نازل ہوئی اور ہم نہیں نازل ہوتے مگر تمہارے پروردگار کے حکم سے، اسی کا ہے جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور ہمارے پیچھے ہے (سورۃ مریم: 64) [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1364]
حدیث نمبر: 1365
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ایک قرآت میں قرآن پڑھایا تھا پھر میں برابر ان سے زیادہ چاہتا رہا یہاں تک کہ سات قراتوں تک پہنچ گیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1365]
حدیث نمبر: 1366
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہاری قوم (قریش) سے جو جو تکالیف اٹھائی ہیں وہ میرا ہی دل جانتا ہے اور سب سے زیادہ سخت دن مجھ پر مقام عقبہ (جو طائف کی طرف ہے) کا دن گزرا ہے جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبد کلال (جو طائف کا رئیس تھا) کے سامنے پیش کیا اور اس نے میری خواہش پوری نہ کی پس میں نہایت رنج میں چلا، میں اپنے ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب (مقام) میں پہنچا۔ اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ابر کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کر لیا ہے پھر میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دی کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی گفتگو سن لی اور وہ جواب جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کافروں کی نسبت جو چاہیں حکم دیں۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، مجھے سلام کیا، اس کے بعد کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! جو تم چاہو موجود ہے، اگر تم چاہو تو میں اخشبین (نامی دونوں پہاڑ) ان پر رکھ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! میں یہ نہیں چاہتا بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ عزوجل کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1366]
حدیث نمبر: 1367
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس آیت پس دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم، پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی کا مطلب بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (ان کی اصلی شکل میں) دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔ (سورۃ النجم: 9 - 10) [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1367]

Previous    1    2    3    4    5    6    Next