سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ (مال) ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچ لے لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ بچتا، اس کو اس مصرف میں خرچ کر دیتے تھے جہاں اللہ کا مال یعنی صدقہ خرچ کیا جاتا ہے۔ پھر (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے) اپنے پاس بیٹھے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا کہ میں تمہیں اس اللہ کی قسم دلاتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں (بتاؤ!) کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا؟ انھوں نے کہا کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اور اس مجلس میں سیدنا علی، عباس، عثمان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما تھے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کے جھگڑے کی بابت پوری حدیث بیان کی جس کا لانا ہمارے فرائض میں شامل نہیں۔ (سورۃ الانفال کی: 41 میں خمس کا ذکر ہے۔ باب میں اسی طرف اشارہ ہے اور حدیث دیکھئیے کتاب: ایمان کا بیان۔۔۔ باب: خمس مال غنیمت کے پانچویں حصہ کا ادا کرنا ایمان میں سے ہے)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1318]
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ، عصا، تلوار، پیالہ اور انگوٹھی کی بابت کیا ذکر کیا گیا ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے ان میں سے کون کون سی چیزیں استعمال کیں، ان کو تقسیم نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اور آپ کا جوتا اور آپ کے برتنوں میں سے، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور دوسرے مسلمانوں نے متبرک سمجھا۔
حدیث نمبر: 1319
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے دو جوتے بغیر بال کے چمڑے کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے نکالے، جن پر دو تسمے لگے ہوئے تھے، اور بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1319]
حدیث نمبر: 1320
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک چادر (جسے) ملبدہ (کہتے ہیں) نکالی اور کہا کہ اسی کو اوڑھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1320]
حدیث نمبر: 1321
ایک روایت میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک موٹا تہبند، اس قسم کا جیسا کہ اہل یمن بناتے ہیں اور ایک چادر اسی قسم کی جس کو ملبدہ کہتے ہیں، نکالی (کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1321]
حدیث نمبر: 1322
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ جب ٹوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوٹے ہوئے مقام پر چاندی کا ایک تار لگا لیا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1322]
3. اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الانفال میں یہ) فرمانا ”پس مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے“۔
حدیث نمبر: 1323
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ انصار نے کہا کہ ہم تجھے ابوالقاسم (کبھی) نہ کہیں گے اور (اس مبارک کنیت سے) تیری آنکھ ٹھنڈی نہ کریں گے تو وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، میں نے اس کا نام قاسم رکھا تو انصار کہتے ہیں ہم تجھ کو ابوالقاسم نہ کہیں گے اور تیری آنکھ ٹھنڈی نہ کریں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کیا، میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت نہ رکھو کیونکہ قاسم تو میں ہی تو ہوں،“(قاسم کا مطلب ہے تقسیم کرنے والا)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1323]
حدیث نمبر: 1324
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں تمہیں (کچھ) دیتا ہوں اور نہ تم سے روکتا ہوں، میں تو تقسیم کرنے والا ہوں، جہاں مجھے حکم دیا جاتا ہے میں صرف کر دیتا ہوں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1324]
حدیث نمبر: 1325
سیدہ خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا: ”کچھ لوگ اللہ کے مال میں بغیر حق کے تصرف کرتے ہیں، قیامت کے دن ان کے لیے دوزخ ہو گی۔“(یعنی وہ دوزخ میں جائیں گے۔ ((اللّٰھمّ اجرنا من النّار))[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1325]
4. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ تم لوگوں کے لیے غنیمت حلال کر دی گئی ہے۔
حدیث نمبر: 1326
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے نبیوں میں سے ایک نبی نے جہاد کیا تو انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور وہ اس سے زفاف کرنا چاہتا ہو اور ابھی تک اس نے زفاف نہ کیا ہو اور نہ وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور اس کی چھت نہ پاٹی ہو اور نہ وہ شخص جس نے بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے جننے کا منتظر ہو۔ الغرض انھوں نے جہاد کیا۔ پس وہ اس بستی کے قریب نماز عصر کے وقت یا اس کے قریب پہنچے، پھر انھوں نے آفتاب سے کہا کہ تو بھی (اللہ کا) محکوم ہے اور میں (بھی اس کا) محکوم ہوں۔ اے اللہ! اس کو ہمارے سامنے (غروب ہونے سے) روک لے۔ چنانچہ وہ روک لیا گیا یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح دی، پھر انھوں نے غنیمتوں کو جمع کیا۔ آسمان سے آگ آئی تاکہ اس مال کو کھا جائے مگر اس نے نہیں کھایا تو نبی نے کہا کہ تم لوگوں میں (کسی نے) چوری کی ہے لہٰذا ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی مجھ سے بیعت کرے۔“ تو ایک شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گیا تو نبی نے کہا: ”وہ چوری کرنے والا تمہیں میں ہے لہٰذا تمہارے قبیلے کے سب لوگ مجھ سے بیعت کریں۔“ چنانچہ دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گئے۔ نبی نے کہا کہ چوری تمہیں نے کی ہے پس وہ سونے کا ایک سر مثل گائے کے سر کے لے آئے اور اس کو رکھ دیا، تب آگ آ گئی اور اس نے کھا لیا۔ پھر اللہ نے ہماری کمزوری اور ہماری عاجزی دیکھی، اس سبب سے غنیمتوں کو ہمارے لیے حلال کر دیا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1326]
5. اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورت کے لیے ہے۔
حدیث نمبر: 1327
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج نجد کی طرف روانہ کی جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے تو انہوں نے بہت سے اونٹ مال غنیمت میں پائے تو ان سب کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے اور ایک اونٹ انھیں حصہ سے زیادہ دیا گیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1327]