اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آدمی کی وصیت لکھی ہوئی ہونی چاہیے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ) میں فرمایا «كتب عليكم إذا حضر أحدكم الموت إن ترك خيرا الوصية للوالدين والأقربين بالمعروف حقا على المتقين * فمن بدله بعد ما سمعه فإنما إثمه على الذين يبدلونه إن الله سميع عليم * فمن خاف من موص جنفا أو إثما فأصلح بينهم فلا إثم عليه إن الله غفور رحيم»”تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی معلوم ہو اور کچھ مال بھی چھوڑ رہا ہو تو وہ والدین اور عزیزوں کے حق میں دستور کے موافق وصیت کر جائے۔ یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر۔ پھر جو کوئی اسے اس کے سننے کے بعد بدل ڈالے سو اس کا گناہ اسی پر ہو گا جو اسے بدلے گا ‘ بیشک اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔ البتہ جس کسی کو وصیت کرنے والے سے متعلق کسی کی طرفداری یا حق تلفی کا علم ہو جائے پھر وہ موصی لہ اور وارثوں میں (وصیت میں کچھ کمی کر کے) میل کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشش کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔“(آیت میں) «جنفا» کے معنی ایک طرف جھک جانے کے ہیں «متجانف» کے معنی جھکنے والے کے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2738]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے ‘ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی مسلمان کے لیے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔“ امام مالک کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن مسلم نے عمرو بن دینار سے کی ہے ‘ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2738]
ہم سے ابراہیم بن حارث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ ابن ابی بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے زہیر بن معاویہ جعفی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق عمرو بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسبتی بھائی عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ نے جو جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا (ام المؤمنین) کے بھائی ہیں ‘ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد سوائے اپنے سفید خچر ‘ اپنے ہتھیار اور اپنی زمین کے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقف کر گئے تھے نہ کوئی درہم چھوڑا تھا نہ دینار نہ غلام نہ باندی اور نہ کوئی چیز۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2739]
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی؟ یا (راوی نے اس طرح بیان کیا) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کر دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی (اور کتاب اللہ میں وصیت کرنے کے لیے حکم موجود ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2740]
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا ‘ کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی عبداللہ بن عون سے ‘ انہیں ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی رضی اللہ عنہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے) وصی تھے تو آپ نے کہا کہ کب انہیں وصی بنایا۔ میں تو آپ کے وصال کے وقت سر مبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے (بجائے سینے کے) کہا کہ اپنے گود میں رکھے ہوئے تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی کا) طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں (سر مبارک) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو وصی کب بنایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2741]
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا سعد بن ابراہیم سے ‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجۃ الوداع میں) میری عیادت کو تشریف لائے ‘ میں اس وقت مکہ میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ ابن عفراء (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) پر رحم فرمائے۔“ میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں“ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی یہی فرمایا ”نہیں“ میں نے پوچھا پھر تہائی کی کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے ‘ اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کے لیے خرچ کرو گے) تو وہ خیرات ہے ‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے (وہ بھی خیرات ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2742]
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ ذمی کافر کے لیے بھی تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نافذ نہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا «وأن احكم بينهم بما أنزل الله»”آپ ان میں غیر مسلموں میں بھی اس کے مطابق فیصلہ کیجئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2743]
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کاش! لوگ (وصیت کو) چوتھائی تک کم کر دیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”تم تہائی (کی وصیت کر سکتے ہو) اور تہائی بھی بہت ہے۔“ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ)”یہ بہت زیادہ رقم ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2743]
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زکریا بن عدی نے بیان کیا ‘ ان سے مروان بن معاویہ نے ‘ ان سے ہاشم ابن ہاشم نے ‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے ان کے باپ سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ میں مکہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کیلئے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے الٹے پاؤں واپس نہ کر دے (یعنی مکہ میں میری موت نہ ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں صحت دے اور تم سے بہت سے لوگ نفع اٹھائیں۔ میں نے عرض کیا میرا ارادہ وصیت کرنے کا ہے۔ ایک لڑکی کے سوا اور میرے کوئی (اولاد) نہیں۔ میں نے پوچھا کیا آدھے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدھا تو بہت ہے۔ پھر میں نے پوچھا تو تہائی کی کر دوں؟ فرمایا کہ تہائی کی کر سکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے یا (یہ فرمایا کہ) بڑی (رقم) ہے۔ چنانچہ لوگ بھی تہائی کی وصیت کرنے لگے اور یہ ان کیلئے جائز ہو گئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2744]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے ‘ وہ عروہ بن زبیر سے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے ‘ اس لیے تم اسے لے لینا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور کہا کہ میرے بھائی کا لڑکا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مجھے اس کی وصیت کی تھی۔ پھر عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ تو میرا بھائی ہے میرے باپ کی لونڈی نے اس کو جنا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ پھر یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ‘ مجھے اس نے وصیت کی تھی۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ میرا بھائی اور میرے والد کی باندی کا لڑکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ یہ فرمایا کہ لڑکا تمہارا ہی ہے عبد بن زمعہ! بچہ فراش کے تحت ہوتا ہے اور زانی کے حصے میں پتھر ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کر کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی مشابہت اس لڑکے میں صاف پائی تھی۔ چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہا کو کبھی نہ دیکھا تاآنکہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2745]