سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) لوگوں کا زادراہ کم ہو گیا اور لوگ محتاج ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت لینے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی پھر (امیرالمؤمنین) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انھیں ملے اور ان لوگوں نے ان سے یہ بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ اونٹوں کے ختم ہونے کے بعد تمہاری زندگی کس طرح گزرے گی؟ وہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا یا رسول اللہ! اونٹوں کے بعد ان کی زندگی کس طرح گزرے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ اپنے بچے ہوئے زادراہ لے آئیں اور اس کے لیے ایک چمڑہ بچھا دیا گیا اور سب زادراہ چمڑے پر بکھیر دیے گئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اس پر طلب برکت کے لیے رب العالمین سے درخواست گزار ہوئے، پھر سب لوگوں کو ان کے برتنوں سمیت بلوایا۔ لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے بھربھر کر لینا شروع کیا، یہاں تک کہ سب لوگ چلے گئے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1131]
حدیث نمبر: 1132
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبیلہ اشعری کے لوگ جب جہاد میں فقیر ہو جایا کرتے ہیں اور ان کے گھر والوں کا کھانا مدینہ میں کم ہو جاتا ہے تو وہ اپنا تمام مال ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں پھر آپس میں ایک پیمانہ سے برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں تو یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1132]
2. بکریوں کی تقسیم (کس طرح کی جائے؟)۔
حدیث نمبر: 1133
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ذوالحلیفہ میں تھے۔ لوگوں کو بھوک معلوم ہوئی پھر انھیں کچھ اونٹ اور بکریاں مل گئیں۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے تھے تو لوگوں نے جلدی کی اور (بکریوں اور اونٹوں کو) ذبح کر ڈالا اور دیگیں چڑھا دیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دیگیں الٹ دی جائیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تقسیم فرمائی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ انھیں اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھاگ گیا، لوگ اس کے پیچھے دوڑے، اس نے انھیں تھکا دیا اور لوگوں کے پاس گھوڑے کم تھے پھر ایک شخص نے ان میں ایک تیرا سے مارا، اللہ نے اس کو روک دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان جانوروں میں بھی بعض مثل جنگلی جانوروں کے وحشی ہوتے ہیں پس ان میں سے جو کوئی تم پر غلبہ کرے اس کے ساتھ تم ایسا ہی کرو۔“ میں (رافع) نے کہا کہ ہمیں کل دشمن کے آ جانے کا خوف ہے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں تو کیا ہم بانس کی کھپاج سے ذبح کر لیں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز خون نکال دے اور (بوقت ذبح) اس پر اللہ کا نام لے لیا جائے اسے تم کھا لو بشرطیکہ آلہ ذبح دانت اور ناخن نہ ہوں۔ میں تم سے اس کی حقیقت بیان کیے دیتا ہوں، دانت تو ایک ہڈی ہے (اور ہڈی) سے ذبح کرنا (درست نہیں) اور ناخن حبش (کے کافروں) کا آلہ ذبح ہیں (اس سے ذبح کرنے میں ان کے ساتھ مشابہت ہو گی)۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1133]
3. کسی عادل آدمی کی تجویز سے شرکاء کے درمیان مشترکہ چیزوں کی قیمت لگانا درست ہے۔
حدیث نمبر: 1134
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے (مشترک) غلام کو بقدر اپنے حصہ کے آزاد کرے اس پر ضروری ہے کہ اپنے مال سے اس کو پوری رہائی دلا دے، پھر اگر اس کے پاس (اس قدر) مال نہ ہو تو کسی عادل کی تجویز سے اس غلام کی قیمت لگائی جائے پھر اس غلام سے مزدوری کرا لی جائے مگر (اس کے لیے) اس پر جبر نہ کیا جائے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1134]
4. کیا یہ جائز ہے کہ تقسیم میں قرعہ ڈالا جائے؟
حدیث نمبر: 1135
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود پر قائم ہو اور (اس کی) جو ان میں مبتلا ہو گیا ہو مثل ان لوگوں کے ہے جنہوں نے ایک کشتی کے حصے بذریعہ قرعہ باہم تقسیم کر لیے تو بعض لوگوں کے حصہ میں اوپر کا طبقہ آیا اور بعض کے حصے میں نیچے کا طبقہ تو جو لوگ نیچے رہتے تھے ان کو جب پانی لینے کی ضرورت ہوتی تھی تو اپنے اوپر والوں کے پاس جاتے پھر ان لوگوں نے یہ کہا کہ کاش! ہم اپنے حصہ میں سوراخ کر لیتے اور (وہیں سے پانی لے لیا کرتے) اپنے اوپر والوں کو تکلیف نہ دیتے۔ پس اب اگر وہ اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے ارادوں کے موافق چھوڑ دیتے ہیں تو سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر وہ ان کے ہاتھ پکڑ لیں گے تو وہ بھی بچ جائیں گے اور سب دوسرے بھی بچ جائیں گے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1135]
5. غلہ وغیرہ میں شرکت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1136
سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھیں ان کی والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئی تھیں اور انھوں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ! اس سے بیعت لے لیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ چھوٹے ہیں۔“(ان سے ابھی بیعت لینا بےسود ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی۔ یہی (عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ) بازار جاتے اور غلہ خریدتے تھے۔ پھر کبھی سیدنا ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما ان سے ملتے تو کہتے کہ ہمیں بھی شریک کر لو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے برکت کی دعا کی ہے پس وہ ان کو شریک کر لیتے تھے تو اکثر اوقات پورا پورا اونٹ (غلے کے ساتھ بطور نفع کے) حصے میں آ جاتا تھا اور وہ اس کو اپنے گھر روانہ کر دیتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1136]