1. کاشت (کھیتی باڑی) کرنے اور درخت لگانے کی فضیلت کا بیان۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کوئی کاشت کرتا ہے اور اس میں سے پرندہ یا انسان یا کوئی چوپایہ کھاتا ہے تو اس (کاشتکار) کے لیے اس میں صدقہ دینے کے برابر ثواب ہوتا ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1071]
2. زرعی آلات میں بہت زیادہ مشغول رہنے اور جائز حدود سے تجاوز کرنے کا برا انجام۔
سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک ہل کا پھال اور کھیتی باڑی کرنے کا ایک آلہ دیکھا تو کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”یہ آلہ کسی قوم کے گھر میں داخل نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1072]
3. کھیتی (کی حفاظت) کے لیے کتے کا رکھنا (کیسا ہے؟)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کتا پالتا ہے تو ہر روز اس کی نیکی سے ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے سوائے اس کتے کے جو کھیتی یا جانوروں (کی حفاظت) کے لیے رکھا جائے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1073]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوائے بکریوں یا کھیتی یا شکار کے (محافظ) کتے کے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1074]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت میں یوں منقول ہے: ”سوائے شکار اور مویشیوں کے (محافظ) کتے کے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1075]
4. بیل کو کاشت کے کام میں لانا (کیسا ہے؟)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس حالت میں کہ ایک شخص بیل پر سوار تھا وہ بیل اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ میں اس (سواری کرنے) کے لیے پیدا نہیں ہوا، میں تو کھیتی کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ واقعہ بیان کر کے) فرمایا: ”اس پر میں یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما بھی) یقین رکھتے ہیں اور ایک بھیڑیئے نے ایک بکری پکڑ لی تو چرواہا اس کے پیچھے دوڑا بھیڑیئے نے کہا کہ (آج تو چھڑا لے مگر یہ تو بتا کہ) جس دن (مدینہ اجاڑ ہو گا) درندے ہی درندے رہ جائیں گے، اس دن بکری کا محافظ کون ہو گا؟ اس دن تو میرے سوا کوئی اس کا چرواہا نہ ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ واقعہ بیان کر کے) فرمایا: ”میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما بھی) اس پر یقین رکھتے ہیں۔“ راوی (ابوسلمہ) کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرف سے بھی شہادت دی حالانکہ) وہ دونوں اس وقت موجود نہ تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1076]
5. جب شخص (کسی سے) کہے کہ کھجور (وغیرہ) کے درختوں کی خدمت تو اپنے ذمہ لے لے (اور پھل میں تو میرا شریک رہے گا، تو کیا درست ہے؟)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ ہم لوگ اپنے باغات اپنے اور اپنے مہاجرین بھائیوں کے درمیان تقسیم کر لیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ تب انھوں نے (مہاجرین سے) کہا کہ تم محنت کرو اور ہم پھلوں تمہیں میں شریک کر لیں گے تو مہاجرین نے کہا کہ اچھا! ہم نے سنا اور ہم (اس پیش کش کو) قبول کرتے ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1077]
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تمام اہل مدینہ سے زیادہ کاشت ہمارے ہاں ہوتی تھی ہم کھیت کرایہ پر لیا کرتے تھے، کرایہ کے بدلے اس کھیت کا ایک خاص حصہ مالک زمین کے نام کر دیا جاتا تھا (کہ جو کچھ اس میں پیدا ہو اس کو وہ زمین کے کرایہ میں لے لے) تو کبھی اس حصہ پر کوئی آفت آ جاتی تھی (اس وجہ سے اس میں کچھ پیدا نہ ہوتا تھا) اور باقی کھیت محفوظ رہتا تھا اور کبھی باقی کھیت پر کوئی آفت آ جاتی تھی اور وہ حصہ محفوظ رہتا تھا تو ہمیں اس کی ممانعت کر دی گئی اور سونا یا چاندی (کرایہ میں دینا) اس وقت (رائج) نہ تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1078]
6. آدھی (یا کم و زیادہ) پیداوار پر بٹائی کرنا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے کھیتی اور پھل کی نصف پیداوار پر معاملہ کیا تھا اور (جو اناج یا میوہ اس میں پیدا ہوتا وہ آدھا آدھا تقسیم ہوتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو سو وسق یعنی اسی (80) وسق کھجور اور بیس (20) وسق جو دے دیا کرتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1079]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (مزارعت) سے منع نہیں فرمایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اگر کوئی شخص تم میں سے (اپنی زمین) اپنے بھائی کو مفت ہی دیدے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر کچھ کرایہ لے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1080]