1. ایک شریک کا دوسرے شریک کے لیے تقسیم وغیرہ میں وکیل ہو جانا۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کچھ بکریاں دیں تاکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں تقسیم کر دیں تو (تقسیم کے بعد) بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قربانی تم کر لو۔“ (وکیل کا مطلب نائب یا قائم مقام)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1064]
2. جب چرواہا یا وکیل کسی بکری کو دیکھے کہ مر رہی ہے یا دیگر کسی چیز کو دیکھے کہ وہ خراب ہو رہی ہے تو کیا جائز ہے کہ بکری کو ذبح کر دے اور جس چیز کے خراب ہو جانے کا خوف ہے اس کو درست کر دے؟
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس کچھ بکریاں تھیں جو سلع (نامی پہاڑ) پر چرا کرتی تھیں تو ہماری ایک لونڈی نے ہماری کسی بکری کو مرتے ہوئے دیکھا تو اس نے ایک پتھر کو توڑ کر اس بکری کو اس پتھر سے ذبح کر دیا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کو نہ کھاؤ جب تک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھ لوں یا (یہ کہا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی آدمی بھیجا ہے کہ (اس بارے میں) پوچھ کر آئے چنانچہ اس نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت دریافت کیا یا کوئی قاصد بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کا حکم فرما دیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1065]
3. قرض کے ادا کرنے میں وکیل کرنا جائز ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص اپنے اونٹ کا تقاضا کرنے آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت کلامی کی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو مارنے کا ارادہ کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو کیونکہ صاحب حق کی گفتگو ایسی ہی ہوتی ہے۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اسی عمر کا اونٹ دے دو جس عمر کا اس کا اونٹ تھا۔ لوگوں نے عرض کی کہ اس عمر کا تو نہیں اس سے بہتر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو وہی دے دو، اس لیے کہ تم میں اچھا شخص وہ ہے جو قرض کو اچھے طور پر ادا کرے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1066]
4. اگر کسی وکیل کو یا کسی قوم کے حق شفعہ رکھنے والے کو کوئی چیز دیدے تو جائز ہے۔
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدی انھیں واپس کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے وہ بات پسند ہے جو سچی ہو، پس تم لوگ ایک بات اختیار کر لو یا قیدیوں کو واپس لے لو یا مال کو اور میں نے تو تمہارے انتظار میں مال غنیمت کی تقسیم دیر سے کی مگر تم اس وقت تک نہ آئے (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے لوٹے تو دس روز سے بھی کچھ زیادہ دن تک ان کا انتظار کیا) پس انھیں معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں صرف ایک ہی چیز واپس دیں گے تو انھوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں کو واپس لیتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی جماعت میں کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جس طرح اسے سزاوار ہے اس کے بعد فرمایا: ”امابعد! تمہارے یہ بھائی ہمارے پاس توبہ کر کے آئے ہیں اور میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس دے دوں، لہٰذا جو خوشی سے دینا چاہے وہ خوشی سے دیدے اور جو اپنا حصہ قائم رکھنا چاہے اس طرح کہ اب جو پہلی فتح، اللہ ہم کو دے گا اس میں سے اس کا بدلہ لے لے تو وہ اسی شرط پر دیدے۔“ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم بلامعاوضہ اس کو منظور کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ تم میں سے کس نے منظور کیا اور کس نے نامنظور کیا، لہٰذا تم لوگ لوٹ جاؤ اور تمہارے سردار تمہارا پیغام میرے پاس لائیں۔“ پس سب لوگ واپس ہو گئے اور ان سے ان کے سرداروں نے گفتگو کی۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ سب لوگ خوشی سے منظور کرتے ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1067]
5. جب کسی شخص کو وکیل کرے اور وکیل کسی بات کو چھوڑ دے اور موکل اس کو منظور کرے تو یہ جائز ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ رمضان کی حفاظت کا حکم دیا تو ایک آنے والا میرے پاس آیا اور وہ اس میں سے مٹھی بھربھر کر لینے لگا تو میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ واللہ! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلوں گا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں محتاج ہوں اور مجھ پر میری اولاد کا بڑا بار ہے اور مجھے سخت ضرورت ہے چنانچہ میں نے اس کو چھوڑ دیا پھر صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! تمہارے قیدی نے آج رات کو کیا کیا؟“ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت بیان کی اور اولاد کا ذکر کیا تو میں نے اس پر ترس کھا کر چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ رہو، اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے اور وہ پھر آئے گا۔“ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے کہ وہ پھر آئے گا یقین کر لیا کہ وہ پھر آئے گا چنانچہ میں اس کا منتظر رہا وہ پھر آیا اور غلہ سے مٹھیاں بھرنے لگا۔ میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر چلوں گا وہ کہنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں محتاج ہوں اور مجھ پر میری اولاد کا بڑا بار ہے، آئندہ میں کبھی نہ آؤں گا۔ میں نے اس پر رحم کھایا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟“ میں نے عرض کی کہ ”یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت بیان کی اور اولاد کا ذکر کیا لہٰذا میں نے اس پر رحم کھا کر چھوڑ دیا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہوشیار ہو! اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے اور وہ پھر آئے گا۔“ میں نے تیسری رات کو اس کا انتظار کیا وہ اپنے وقت پر آیا اور غلہ میں سے مٹھیاں بھرنے لگا۔ میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ ”اب تو میں تجھے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلوں گا کیونکہ یہ تیسری بار ہے کہ تو کہتا ہے کہ میں اب نہ آؤں گا اور پھر بھی آتا ہے۔“ اس نے کہا ”مجھے چھوڑ دو میں تمہیں چند کلمات ایسے تعلیم کروں گا جن سے اللہ تمہیں فائدہ دے گا۔“ میں نے کہا ”وہ کیا؟“ کہنے لگا کہ ”جب تم اپنے بچھونے پر (سونے کے لیے) جاؤ تو آیۃ الکرسی پڑھ لو ((اﷲ لا الٰہ الاّ ھو الحیّ القیّوم)) مکمل آیت تک، پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نگہبان تمہارے پاس برابر رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہ آئے گا۔“ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تمہارے قیدی نے گزشتہ شب کو کیا کیا؟“ میں نے عرض کی ”یا رسول اللہ! اس نے کہا کہ میں تمہیں چند کلمات ایسے تعلیم کرتا ہوں کہ اللہ ان سے تم کو نفع دے گا تو میں نے اس کو چھوڑ دیا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کلمات کیا ہیں؟“ میں نے عرض کی اس نے مجھ سے کہا کہ ”جب تم اپنے بستر پر (سونے کے لیے) جاؤ تو تم آیۃ الکرسی شروع سے آخر تک پڑھ لیا کرو ((اﷲ لا الٰہ الاّ الحیّ القیّوم)) اور اس نے مجھ سے کہا کہ (اس کے پڑھ لینے سے) صبح تک اللہ کی طرف سے ایک نگہبان تمہارے پاس رہے گا اور شیطان تمہارے پاس نہ آئے گا“ (کیونکہ صحابہ نیکی پر بڑے حریص تھے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار رہو! اس نے اس مرتبہ تم سے سچ کہا حالانکہ وہ بہت جھوٹا ہے، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! تم جانتے ہو کہ تین دن تک تم نے کس سے باتیں کیں؟“ میں نے عرض کی کہ ”نہیں“ تو فرمایا: ”وہ شیطان تھا۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1068]
6. اگر وکیل کسی خراب چیز کو اس کی خرابی بتائے بغیر فروخت کر دے تو اس کی بیع مقبول نہ ہو گی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ”برنی“ قسم کی اچھی کھجور لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”یہ کہاں سے لائے؟“ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ خراب کھجوریں تھیں، ہم نے اس کے دو صاع کے عوض اس کھجور کا ایک صاع لیا ہے تاکہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”توبہ! توبہ! یہ تو بالکل سود ہے، ایسا نہ کیا کرو بلکہ جب تم (عمدہ کھجور) خریدنا چاہو تو (گھٹیا کھجور) کسی اور چیز کے عوض فروخت کر دو، پھر اس چیز کے عوض (عمدہ کھجور) خرید لو۔“ (یہی حدیث ایک دوسری سند کے ساتھ صحیح مسلم میں ہے جس میں فردّہ کہ ”اسے واپس کر دو“ کے الفاظ ہیں)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1069]
7. حدود میں کس کو وکیل کرنا درست ہے۔
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نعیمان یا ابن نعیمان شراب پیے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو جو اس وقت گھر میں موجود تھے، یہ حکم دیا کہ ان کو ماریں۔ سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کو مارا اور ہم نے ان کو جوتیوں سے اور چھڑیوں سے مارا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1070]