الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مختصر صحيح بخاري کل احادیث (2230)
حدیث نمبر سے تلاش:

مختصر صحيح بخاري
اجرتوں کے بیان میں
1. مرد صالح کو مزدوری پر لگانا (جائز ہے)۔
حدیث نمبر: 1054
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور میرے ہمراہ دو اشعری (قبیلے کے) آدمی تھے (انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عہدہ کی خواہش کی)۔ میں نے عرض کی کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کوئی منصب چاہتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی عہدہ مانگے ہم اس کو ہرگز عہدہ نہیں دیتے۔ (یعنی عامل نہیں بناتے، نوکری نہیں دیتے)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1054]
2. چند قیراط کی مزدوری پر بکریاں چرانا۔
حدیث نمبر: 1055
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی بکریاں چرائی ہیں؟) فرمایا: ہاں! میں بھی کچھ قیراطوں کے عوض مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1055]
3. عصر کے وقت سے رات تک کے لیے کسی کو مزدوری پر لگانا۔
حدیث نمبر: 1056
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کی اور یہود و نصاریٰ کی حالت مثل اس شخص کے ہے جس نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر لگایا تاکہ وہ دن بھر رات تک ایک معینہ اجرت کے اوپر اس شخص کا کام کریں۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوپہر تک اس کا کام کیا اور کہنے لگے کہ ہمیں تیری مزدوری کی جو تو نے ہمارے لیے مقرر کی تھی کچھ حاجت نہیں اور جو کام ہم نے کیا وہ بھی رائیگاں ہے۔ اس شخص نے ان سے کہا کہ تم ایسا نہ کرو بلکہ اپنا باقی کام پورا کرو اور اپنی مزدوری پوری لو مگر انھوں نے انکار کیا اور اس شخص نے ان کے بعد دوسرے لوگوں کو اجرت پر لگا لیا کہ تم باقی دن پورا کر دو اور جو کچھ میں نے ان کے لیے مقرر کیا تھا وہ تمہیں ملے گا۔ چنانچہ انھوں نے کام کرنا شروع کیا یہاں تک کہ جب نماز عصر کا وقت آیا تو کہنے لگے کہ ہم نے جو کام کیا وہ بالکل بیکار رہا اور جو مزدوری اس کام کی تو نے مقرر کی تھی وہ تجھی کو مبارک (اب ہم تیرا کام نہ کریں گے) اس شخص نے کہا کہ اپنا باقی کام پورا کر دو اس لیے کہ اب دن تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے مگر ان لوگوں نے انکار کیا پھر اس شخص نے باقی دن میں کام کرانے کے لیے دوسرے لوگوں کو مزدوری پر لگایا۔ انھوں نے باقی دن میں کام کیا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا اور ان لوگوں نے دونوں فریقوں کی پوری مزدوری لے لی پس یہی مثال ہے ان لوگوں کی (یعنی مسلمانوں کی) اور اس نور (ہدایت) کی جس کو انھوں نے قبول کیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1056]
4. ایک مزدور اپنی مزدوری کا پیسہ چھوڑ کر چل دے اور جس نے مزدور لگایا تھا وہ اس پیسے میں محنت کر کے اس کو بڑھائے تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 1057
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم سے پہلے لوگوں میں تین آدمی (ایک ساتھ کسی کام کے لیے) چلے یہاں تک کہ وہ شب کے وقت ایک غار کے پاس پہنچے اور وہ تینوں اس میں داخل ہو گئے (اتفاقاً) ایک پتھر پہاڑ سے لڑھکا اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا تو انھوں نے کہا کہ اس پتھر سے کوئی چیز رہائی نہیں دے سکتی مگر یہ کہ تم اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ پس ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میں ان سے پہلے نہ تو اپنے بچوں وغیرہ کو دودھ پلاتا تھا اور نہ ہی لونڈی غلاموں کو۔ ایک دن اتفاق سے کسی کام میں مجھ کو دیر ہو گئی یہاں تک کہ جب میں ان کے پاس آیا تو وہ سو گئے تھے لہٰذا میں نے ان کے لیے شام کا دودھ دوھا اور اس کا برتن ہاتھ میں اٹھا لیا مگر میں نے ان کو سوتا ہوا پایا تو مجھے یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ میں ان سے پہلے اپنے گھر والوں کو اور لونڈی غلاموں کو کچھ پلاؤں پس میں ٹھہر گیا اور (دودھ کا بھرا ہوا) پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی پس وہ دونوں بیدار ہوئے اور انھوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو تو اس پتھر کی وجہ سے جس حال میں ہم ہیں، اس کو ہم سے دور کر دے۔ چنانچہ وہ پتھر ہٹ گیا مگر وہ اس سے نکل نہ سکتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوسرے شخص نے کہا کہ اے اللہ! میرے چچا کی بیٹی تھی جو تمام لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب تھی، میں نے اس سے برے کام کی خواہش کی مگر وہ مجھ سے راضی نہ ہوئی یہاں تک کہ ایک سال جب قحط پڑا تو اس کو کچھ ضرورت پیش آئی تو وہ میرے پاس آئی اور میں نے اس کو ایک سو بیس اشرفیاں دیں اس شرط پر دینا منظور کیں کہ وہ مجھے اپنی ذات سے نہ روکے۔ اس نے (اس شرط کو منظور) کیا یہاں تک کہ جب مجھے اس پر قابو ملا تو وہ کہنے لگی کہ میں تیرے لیے اس بات کو جائز نہیں سمجھتی کہ تو مہر (پردہ بکارت) کو ناحق توڑے پس میں نے یہ سن کر اس کے ساتھ ہمبستری کرنے کو گناہ سمجھا اور اس سے علیحدہ ہو گیا حالانکہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب تھی اور میں نے جس قدر اشرفیاں اس کو دی تھیں، واپس نہیں لیں۔ اے اللہ! میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو تو جس مصیبت میں ہم ہیں اس کو ہم سے دور کر دے۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا مگر ابھی وہ اس سے نکل نہیں سکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرے شخص نے کہا کہ: اے اللہ! میں نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر لگایا تھا اور انھیں ان کی مزدوری دے دی تھی سوائے ایک شخص کے کہ اس نے اپنی مزدوری نہیں لی اور چلا گیا تو میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا یہاں تک کہ بہت مال اس سے حاصل ہوا پھر وہ ایک لمبے عرصے کے بعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے بندے! مجھے میری مزدوری دیدے۔ میں نے اس سے کہا کہ جس قدر اونٹ اور گائے، بکری اور غلام تو دیکھ رہا ہے یہ سب تیری مزدوری کے ہیں۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! کیا تو میرے ساتھ مذاق کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا تو اس نے وہ تمام چیزیں لے لیں اور ان کو ہانک کر لے گیا، ایک چیز بھی اس میں سے نہیں چھوڑی۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو تو جس مصیبت میں ہم ہیں اس کو ہم سے دور کر دے۔ چنانچہ وہ پتھر بالکل ہٹ گیا اور وہ اس سے باہر نکل کر چلے گئے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1057]
5. جھاڑ پھونک کرنے پر جو اجرت دی جائے۔
حدیث نمبر: 1058
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب کسی سفر میں گئے یہاں تک کہ عرب کے قبیلوں میں سے کسی قبیلہ میں جا کر اترے اور ان سے دعوت (مہمان نوازی) طلب کی مگر انھوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا پھر اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا تو لوگوں ہر قسم کی تدبیر کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا پھر کسی نے کہا کہ تم ان لوگوں (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم) کے پاس جاؤ شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو۔ چنانچہ وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ اے لوگو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے ہم نے ہر قسم کی تدبیر کی مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے؟ تو صحابہ (رضی اللہ عنہم) میں سے کسی نے (خود ابوسعید رضی اللہ عنہ نے) کہا ہاں اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں مگر اللہ کی قسم ہم لوگوں نے تم سے دعوت طلب کی اور تم لوگوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی لہٰذا میں تمہارے لیے جھاڑ پھونک نہ کروں گا یہاں تک کہ تم ہمارے لیے اجرت مقرر کرو۔ چنانچہ ان لوگوں نے کچھ بکریوں پر ان کو رضامند کر لیا پھر ان میں سے ایک شخص (ابوسعید رضی اللہ عنہ) گئے اور ((الحمدللّٰہ ربّ العالمین)) پڑھ کر پھونک دیا تو فوراً ہی وہ شخص تندرست ہو گیا، گویا اس کے بندھن کھول دیے گئے اور وہ اٹھ کر چلنے لگا (ایسا معلوم ہوا کہ) اسے کوئی بیماری نہ تھی۔ (ابوسعید رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ان کی وہ اجرت جس پر ان کو راضی کیا تھا دے دی پھر بعض لوگوں نے کہا کہ (اس کو) بانٹ لو مگر جنہوں نے جھاڑ پھونک کی تھی انھوں نے کہا کہ ایسا نہ کرو یہاں تک کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں اور اس واقعہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کریں پھر دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ چنانچہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ الفاتحہ سے دم کیا جاتا ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اچھا کیا (اب جو کچھ ملا ہے اس کو) بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1058]
6. نر جانور کا مادہ جانور سے ملاپ کرانے کی اجرت یا کرایہ لینا۔
حدیث نمبر: 1059
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نر جانور کا مادہ جانور سے ملاپ کرانے کی اجرت یا کرایہ لینے سے منع فرمایا ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1059]