1. ایک معین پیمانہ میں سلم کرنا کیسا ہے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور اس وقت لوگ کھجوروں میں ایک سال اور دو سال کے لیے سلم کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کھجور میں سلم کرے اس کو چاہیے کہ ایک معین پیمانہ اور معین وزن کے حساب سے کرے۔ دوسری ایک روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معین پیمانہ میں مدت معین تک کے لیے (سلم) کرے۔“ (اگر نقد رقم کچھ مدت پہلے ادا کر دی جائے اور جنس (فصل یا کوئی چیز) اس مدت کے بعد حاصل کی جائے تو اس کو ”سلم“ کہتے ہیں)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1049]
2. اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہ ہو۔
سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیہوں، جوار، انگور اور کھجور میں سلم کیا کرتے تھے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1050]
سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم شام کے کسانوں سے گیہوں اور جو اور زیتون میں ایک معین پیمانہ کے حساب سے ایک معین مدت کے لیے سلم کیا کرتے تھے۔ پوچھا گیا کہ جس کے پاس اصل مال موجود ہوتا تھا اس سے (معاملہ) کرتے تھے تو سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے (کہ تمہارے پاس اصل جنس ہے یا نہیں)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1051]