1. جب عمرہ کرنے والا اگر روکا جائے تو کیا کرے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حدیبیہ کے سال مکہ جانے اور) عمرے سے روک دیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حدیبیہ میں ہی) اپنا سر منڈوا ڈالا اور اپنی بیویوں کے ساتھ صحبت فرمائی اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کیا پھر آئندہ سال میں (اس کے بدلے کا) عمرہ کیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 879]
2. حج سے روکے جانے کا بیان۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کافی نہیں ہے؟ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روک لیا جائے تو اسے چاہیے کہ کعبہ کا اور صفا مردہ کا طواف کرے پھر احرام کی ہر بات سے باہر ہو جائے یہاں تک کہ آئندہ سال حج کرے اور قربانی کرے اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھے (ان ابواب کی احادیث بھی پڑھیں کتاب: حج کے بیان میں۔۔۔ باب: جو شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے کر چلے۔۔۔، کتاب: عمرہ کے بیان میں۔۔۔ باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے ادا فرمائے ہیں؟)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 880]
3. جب حج و عمرہ سے روک دیا جائے تو پہلے قربانی کرے پھر سر منڈوائے۔
سیدنا مسور رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ سے روکا گیا تھا) سر منڈوانے سے پہلے قربانی کی تھی اور اپنے صحابہ کو بھی اسی بات کا حکم دیا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 881]
4. اللہ تعالیٰ نے ”صدقہ“ کرنے کا جو حکم دیا ہے اس سے مراد چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھڑے ہوئے تھے اور میرے سر سے جوئیں گر رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہاری جوئیں تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟“ میں نے عرض کی جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنا سر منڈوا لو۔“ (کعب رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میرے ہی حق میں یہ آیت نازل ہوئی: ”جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور وہ اپنا سر منڈوا لے تو ....“ (البقرہ: 196) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم تین روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو یا جو قربانی میسر ہو وہ کر دینا۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 882]
5. فدیہ میں نصف صاع کھانا کھلانا چاہیے۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ دوسری ایک روایت میں کہتے ہیں کہ یہ آیت خاص کر میرے ہی حق میں نازل ہوئی ہے اور وہ تم سب لوگوں کے لیے عام ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 883]