1. حج کے واجب ہونے اور اس کی فضیلت کا بیان۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (میرے بھائی) فضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے کہ خشعم (قبیلہ خشعم) کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیر دیا۔ اس عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کے فرض نے جو ادائے حج کے سلسلے میں اس کے بندوں پر ہے میرے بوڑھے اور ضعیف باپ کو پا لیا ہے (یعنی حج کرنا ان پر ضرور ہو گیا ہے لیکن) وہ سواری پر نہیں جم سکتے پس کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کر لے۔“ اور یہ (واقعہ) حجتہ الوداع میں ہوا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 769]
2. اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الحج میں) فرمانا کہ ”لوگ تمہارے پاس پیادہ پا اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں گے، دور دراز راہوں سے اس لیے کہ اپنے فوائد حاصل کریں۔“۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوتے تھے اس کے بعد جب وہ سیدھی کھڑی ہو جاتی تھی تو لبیک کہتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 770]
3. سواری پر سوار ہو کر حج کے لیے جانا مسنون ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اونٹنی کے) پالان پر سوار ہو کر حج کیا اور اسی اونٹنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان بھی تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 771]
4. حج مبرور کی فضیلت کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہم جہاد کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں پس کیا ہم لوگ جہاد نہ کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! بلکہ عمدہ جہاد ”حج مبرور“ ہے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 772]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اللہ کے لیے حج کرے پھر (حج کے دوران) کوئی فحش بات کرے اور نہ گناہ کرے تو وہ حج کر کے اس طرح بےگناہ واپس لوٹے گا گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے (بےگناہ اور معصوم) جنم دیا ہے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 773]
5. یمن والے احرام کہاں سے باندھیں؟
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات قرار دیا تھا اور شام والوں کے لیے جحفہ اور نجد والوں کے لیے قرن المنازل اور یمن والوں کے لیے یلملم۔ یہ مقامات یہاں کے رہنے والوں کے لیے بھی میقات ہیں۔ اور جو شخص حج یا عمرہ کے ارادہ سے غیر مقام کا رہنے والا ان (مقامات) کی طرف سے ہو کر آئے، اس کی بھی میقات ہیں پھر جو شخص ان مقامات سے مکہ کی طرف کا رہنے والا ہو تو وہ جہاں سے نکلے احرام باندھ لے اسی طرح مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 774]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کے میدان میں اپنے اونٹ کو بٹھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھی اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 775]
7. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ کے راستے سے حج کے لیے جانا ثابت ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے جاتے وقت شجرہ کے راستے سے جاتے تھے اور معرس کے راستے سے واپس آتے تھے اور بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ کی طرف جاتے تھے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھتے تھے اور جب واپس آتے تو ذوالحلیفہ میں نماز پڑھتے جو کہ وادی کے درمیان واقع ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک وہیں رہ کر رات گزارتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 776]
8. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ عقیق نامی وادی ایک مبارک وادی ہے۔
امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ”آج شب کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے (مجھ سے) کہا کہ اس مبارک وادی (یعنی عقیق) میں نماز پڑھو اور کہو کہ ”میں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا (کیونکہ عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔ ایام حج میں بھی عمرہ کیا جا سکے گا)۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 777]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اخیر شب میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معرس کے قریب ذوالحلیفہ میں مقیم تھے، وادی عقیق میں یہ خواب دکھایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مبارک وادی میں ہیں (یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب بھی وحی میں شامل ہیں)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 778]