ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا جو یمنی، سحولی، روئی کے بنے ہوئے تھے، ریشم یا اون کے نہ تھے۔ ان کپڑوں میں نہ قمیض تھا اور نہ عمامہ۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 643]
9. دو کپڑوں میں کفن دے دینا بھی درست ہے۔
حدیث نمبر: 644
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ ایک شخص عرفات میں وقوف کر رہا تھا کہ اچانک اپنی سواری سے گر پڑا اور اس سواری نے اسے کچل ڈالا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو غسل دو، چاہے صرف پانی سے اور بیری کے پانی سے اور اس کو دو کپڑوں میں کفن دے دو اور اس کے جسم میں حنوط (خوشبو) نہ لگانا اور اس کا سر نہ ڈھانپنا قیامت کے دن یہ اسی طرح (بحالت احرام) لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 644]
10. میت کو کفن دینا۔
حدیث نمبر: 645
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی (منافق) جب مر گیا تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ مجھے اپنا کرتا دیجئیے اور اس کا جنازہ پڑھیے اور اس کے لیے استغفار کیجئیے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کو دے دیا اور فرمایا: ”(جب جنازہ تیار ہو جائے تو) مجھے اطلاع دینا میں اس کی نماز پڑھ دوں گا چنانچہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اس کی نماز پڑھیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کی کہ کیا منافقوں پر نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منع نہیں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دونوں باتوں کا اختیار دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (منافقوں کے لیے) دعائے مغفرت کریں یا نہ کریں (یہ ان کے حق میں برابر ہے اور) اگر آپ ستر مرتبہ بھی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“(سورۃ التوبہ: 80) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جنازہ پڑھی تو یہ آیت نازل ہوئی: ”جو کوئی منافق مر جائے اس پر کبھی نماز نہ پڑھنا۔“(سورۃ التوبہ: 84)[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 645]
حدیث نمبر: 646
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لائے اس کے بعد کہ وہ قبر میں رکھ دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکال اور اپنا لعاب اس کے منہ میں ڈال دیا اور اپنا کرتا اسے پہنا دیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 646]
11. جب کفن نہ ملے مگر اسی قدر جو میت کے سر یا پاؤں کو چھپا لے تو اس سے اس کا سر ڈھانپ دیا جائے۔
حدیث نمبر: 647
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کی پس ہمارا ثواب اللہ کے ذمے قائم ہو گیا ہم میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو وفات پا گئے اور انہوں نے اپنے ثواب میں سے (دنیا میں) کچھ نہیں لیا، انہیں لوگوں میں سے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھے اور ہم میں سے بعض لوگ وہ ہیں جن کے لیے ان کا پھل پک گیا اور وہ اسے اٹھا اٹھا کر کھاتے ہیں۔ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن شہید ہوئے اور ہم لوگوں نے (ان کے مال میں سے) اتنا بھی نہ پایا کہ جس سے انہیں کفن دے دیتے سوائے ایک چادر کے (اور وہ بھی ایسی چھوٹی کہ) اگر ہم اس سے ان کا سر ڈھانکتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اور جب ہم ان کے پاؤں ڈھانکتے تھے تو ان کا سر کھل جاتا تھا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر چھپا دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر (گھاس) ڈال دیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 647]
12. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جس شخص نے اپنا کفن خود تیار کر رکھا تھا اور اس پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا۔
حدیث نمبر: 648
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی ہوئی حاشیہ دار چادر تحفتاً لائی، (پھر سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے حاضرین سے پوچھا) کیا تم جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا (ہاں جانتے ہیں بردہ) شملہ (یعنی چادر کو کہتے ہیں)۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں۔ اس عورت نے کہا کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنا ہے اور اس لیے لائی ہوں تاکہ آپ اس کو پہنچیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے کی ضرورت بھی تھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور وہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازار تھی۔ پھر ایک شخص نے اس کی تعریف کی اور کہا کہ مجھے دے دیجئیے (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دے دی) لوگوں نے (اس شخص سے) کہا کہ تو نے اچھا نہ کیا، اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نہایت) ضرورت کی حالت میں پہنا تھا اور تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ لیا، تو یہ جانتا بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کو رد نہیں فرماتے (خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو)۔ اس شخص نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں نے اسے اس لیے نہیں مانگا کہ اس کو پہنوں بلکہ میں نے اسے اس لیے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر وہی چادر ان کا کفن بنی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 648]
13. عورتوں کا جنازہ کے ہمراہ جانا (منع ہے)۔
حدیث نمبر: 649
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگوں کو جنازوں کے ہمراہ جانے سے منع کر دیا گیا مگر کوئی سخت تاکید (کے ساتھ منع) نہیں کیا گیا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 649]
14. عورتوں کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور پر سوگ کرنا۔
حدیث نمبر: 650
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کسی عورت کو جو اللہ تعالیٰ پر ایمان پر رکھتی ہو، یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے مگر شوہر پرچار مہینے اور دس دن (سوگ کرنا چاہیے)۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 650]
15. قبروں کی زیارت کرنا (کیسا ہے)؟
حدیث نمبر: 651
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر کے پاس (بیٹھی ہوئی) رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کر۔“ اس نے کہا کہ مجھ سے پرے ہٹو، اس لیے کہ تمہیں میرے جیسی مصیبت نہیں پہنچی۔ پھر اس عورت سے کہا گیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے (تو نے کیسا گستاخانہ جواب دیا) تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر حاضر ہوئی (وہ سمجھتی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دربان رہتے ہوں گے مگر) اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دربان نہیں پائے۔ پھر وہ عرض کرنے لگی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہ تھا (اس سبب سے مجھ سے گستاخی ہوئی، اب میں صبر کرتی ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر شروع صدمہ کے وقت کرنا چاہیے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 651]
16. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ میت کے عزیز و اقارب کے رونے سے کبھی میت کو عذاب ہوتا ہے (یہ اس وقت ہے کہ) جب نوحہ کرنا اس کے خاندان کا وتیرہ ہو۔
حدیث نمبر: 652
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا لڑکا حالت نزع میں ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواب میں یہ) کہلا بھیجا (کہ میری جانب سے کہنا) کہ وہ سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ”(میں آ کے کیا کروں گا) جو اللہ تعالیٰ نے دے دیا اور جو لے لیا سب اسی کا ہے اور ہر چیز اس کے یہاں ایک مدت معین تک قائم ہے، پس چاہیے کہ باامید ثواب صبر کریں۔“ دوبارہ پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دلائی کہ وہاں ضرور تشریف لائیں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ (جب وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے) تو وہ صاحبزادہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لائے گئے اور (اس وقت ان کا اخیر وقت تھا) ان کی جان تڑپ رہی تھی (ابوعثمان راوی) کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ (سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے) کہا تھا کہ وہ اس طرح تڑپ رہے تھے گویا کہ مشک (لڑھکتی ہو) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں بہنے لگیں تو سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 652]