سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے (جنگل کی طرف) تشریف لے گئے اور (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر الٹ لی۔ اور ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 547]
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بددعا دینا کہ یااللہ! ان پر ایسی قحط سالی ڈال جیسی یوسف (کے عہد) کی قحط سالی (تھی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غریب مسلمانوں کے لیے دعائے نجات مانگتے اور (قبیلہ) مضر (کے کافروں) پر بددعا کرتے .... پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: وتر کا بیان۔۔۔ باب: رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد قنوت کا پڑھنا) اور اس روایت میں کہتے ہیں کہ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے اللہ!) قبیلہ غفار کو معاف فرما دے اور اسلم (قبیلہ اسلم) کو سلامت رکھ۔ ”ابن ابوالزناد نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہا یہ سب صبح کی نماز میں تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 548]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب (قبول دعوت اسلام سے) لوگوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو (اللہ سے) دعا کی: ”اے اللہ! (ان پر) سات برس (قحط ڈال دے) جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے (عہد میں) سات برس تک (مسلسل قحط رہا تھا)۔“ پس قحط نے انھیں آ لیا۔ جس نے ہر قسم کی روئیدگی کو نیست و نابود کر دیا حتیٰ کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار اور سڑے جانور کھانا شروع کر دیئے اور بھوک کی وجہ سے (ضعف اس قدر ہو گیا کہ) جب کوئی ان میں سے آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کو دھواں (سا) دکھائی دیتا۔ پس ابوسفیان (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے محمد! آپ تو اللہ کی بندگی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور بیشک یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگ (ہیں جو مارے بھوک کے) مرے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ان کے لیے دعا کیجئیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے نبی! تم اس دن کا انتظار کرو جس دن آسمان ایک صریح دھواں ظاہر کرے گا اگر ہم ان کافروں سے عذاب دور کر دیں تو یہ پھر (بھی) کفر کریں گے اس کی سزا ان کو اسی دن ملے گی جس دن ہم ایک سخت گرفت میں ان کو پکڑیں گے۔“ (الدخان: 10 - 16) ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ بطشہ (یعنی پکڑ) بدر کے دن ہوئی اور بیشک (سورۃ الدخان میں) دخان (دھواں) اور بطشہ (پکڑ) اور (سورۃ الفرقان میں) لزام (قید) اور سورۃ الروم کی آیت میں جو ذکر ہے سب واقع ہو چکے ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 549]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اکثر میں شاعر کے قول کو یاد کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ (مبارک) کی طرف دیکھتا تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (دعائے) استسقاء مانگتے ہوتے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) نہ اترنے پاتے تھے کہ تمام پر نالے بہنے لگتے تھے (وہ قول شاعر کا یہ ہے): ”گورا ان کا رنگ، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے۔ لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقے سے“ اور یہ ابوطالب کا کلام ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 550]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط زدہ ہوتے تو امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے بارش برسنے کی دعا مانگتے۔ کہتے کہ اے اللہ! (پہلے) ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دعائے استسقاء کیا کرتے تھے اور تو بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ذریعے سے دعا کرتے ہیں پس (اب بھی) بارش برسا دے۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ بارش برسنے لگتی تھی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 551]
3. جامع مسجد میں بھی بارش کی دعا مانگنا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث اس شخص کے بارے میں، جو کہ مسجد میں داخل ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ فرما رہے تھے پس اس نے عرض کی کہ بارش کے لیے دعا مانگیں، پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: جمعہ کا بیان۔۔۔ باب: جمعہ کے دن خطبہ میں بارش کے لیے دعا مانگنا) اور اس روایت میں ہے کہ (انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ایک ہفتہ ہم نے آفتاب (کی شکل) نہیں دیکھی تھی پھر آئندہ جمعہ میں ایک شخص اسی دروازے سے (مسجد میں) حاضر ہوا اور (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (جمعہ کا) خطبہ دے رہے تھے پس وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! (لوگوں کے) مال (پانی کی کثرت سے) خراب ہو گئے اور راستے بند ہو گئے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ بارش کو روک دے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس کے بعد کہا: ”اے اللہ! ہمارے آس پاس بارش برسا اور ہم پر نہ برسا، ٹیلوں، پہاڑوں، پہاڑیوں، میدانوں، وادیوں اور درختوں کی جڑوں میں بارش برسا۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ کہتے ہی) بارش بند ہو گئی اور ہم لوگ دھوپ میں چلنے پھرنے لگے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 552]
4. جمعہ کے خطبہ میں جب کہ قبلہ کی طرف منہ نہ ہو، بارش کی دعا مانگنا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ، فرماتے ہیں کہ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوران خطبہ کھڑے ہوئے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ”اے اللہ بارش برسا دے، اے اللہ! بارش برسا دے، اے اللہ! بارش برسا دے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 553]
5. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استسقاء میں لوگوں کی طرف اپنی پیٹھ کس طرح پھیر لی؟
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث استسقاء کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھئیے باب: استسقاء کا بیان) اور اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیٹھ لوگوں کی طرف پھیر لی اور قبلے کی طرف منہ کر لیا اور دعا مانگنے لگے، اس کے بعد اپنی چادر الٹ لی پھر ہم لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی، ان میں بلند آواز سے قرآت کی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 554]
6. امام کا استسقاء (کی دعا میں) اپنا ہاتھ اٹھانا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ (اس قدر بلند) کسی دعا میں نہ اٹھاتے تھے جتنے دعائے استسقاء میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (استسقاء میں ہاتھ اس قدر بلند) اٹھاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 555]
7. جب بارش برسے تو کیا کہنا چاہیے؟
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش (برستی) دیکھتے تو فرماتے: ”(اے اللہ!) فائدہ دینے والی بارش برسا۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 556]