سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، جبکہ وہ عراق میں تھے اور ایک دن نماز میں تاخیر ہو گئی تھی، کہا کہ اے مغیرہ! (تم نے) یہ کیا کیا؟ تم نہیں جانتے کہ (ایک دن) جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی) پڑھی، پھر (دوسری) نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھی، پھر (تیسری) نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھی، پھر (چوتھی) نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھی، پھر (پانچویں) نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھی، پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ مجھے اسی طرح حکم ہوا ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 325]
2. نماز (گناہوں) کا کفارہ ہے۔
حدیث نمبر: 326
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کہا کہ فتنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تم میں سے کسے یاد ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے (بالکل اسی طرح) یاد ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر بیان کیجئیے تو میں نے کہا کہ آدمی کا وہ فتنہ جو اس کی بیوی اور اس کے مال اور اولاد میں ہوتا ہے نماز، روزہ، صدقہ اور امر (بالمعروف) اور نہی (عن المنکر) اس کو مٹا دیتا ہے۔ امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں یہ نہیں (پوچھنا) چاہتا بلکہ وہ فتنہ جو دریا کی طرح موج زن ہو گا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین؟ اس فتنہ سے آپ کو کچھ خوف نہیں کیونکہ آپ کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا: وہ دروازہ توڑ ڈالا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ توڑ ڈالا جائے گا۔ پھر امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر (وہ دروازہ) کبھی بند نہ ہو گا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازے کو جانتے تھے؟ انھوں نے کہا ہاں (اس طرح جانتے تھے) جیسے (تم جانتے ہو) کہ دن کے بعد رات ہو گی۔ (سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ) نے وہ حدیث بیان کی جو غلط نہ تھی۔ پس ان سے (دروازے کا) پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ دروازہ ”امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 326]
حدیث نمبر: 327
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی (اجنبی) عورت کو بوسہ دے دیا پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت نازل فرما دی: ”نماز کو دن کے سروں میں اور کچھ رات گئے قائم کرو بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔“ تو وہ شخص بولا کہ اللہ کے رسول! کیا یہ میرے ہی لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری تمام امت کے لیے ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 327]
حدیث نمبر: 328
ایک اور روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: میری امت میں سے ہر ایک (صغیرہ گناہ کا) کام کرنے والے کے لیے (یہ کفارہ) ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 328]
3. نماز، اس کے وقت (معین) پر پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 329
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”نماز، جو اپنے وقت پر (پڑھی گئی) ہو۔“ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بعد والدین کی اطاعت کرنا۔“ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسی قدر بیان فرمایا اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیان فرماتے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 329]
4. پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں۔
حدیث نمبر: 330
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ”اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر بہتی ہو کہ وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو کہ تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ (نہانا) اس کے میل کچیل کو باقی رکھے گا؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یہ اس کے میل کچیل میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اللہ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 330]
5. نماز پڑھنے والا اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔
حدیث نمبر: 331
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھا دے اور جب تھوکے تو چاہیے اپنے آگے نہ تھوکے اور نہ اپنی داہنی جانب، اس لیے کہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 331]
6. گرمی کی شدت میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا۔
حدیث نمبر: 332
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی زیادہ بڑھ جائے تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔ اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے (ہوتی) ہے اور جہنم نے اپنے پروردگار سے شکایت کی اور کہا کہ اے میرے پروردگار! میرے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس کی سردی میں اور ایک سانس کی گرمی میں۔ اور وہی سخت گرمی ہے جس کو تم محسوس کرتے ہو اور سخت سردی ہے جسے تم پاتے ہو۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 332]
حدیث نمبر: 333
سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”ٹھنڈا ہونے دو۔“ پھر اس نے چاہا کہ اذان دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”ٹھنڈا ہونے دو۔“ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے (ہوتی) ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو جائے تو (ظہر کی) نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 333]
7. ظہر کا وقت زوال کے وقت سے (شروع ہوتا) ہے۔
حدیث نمبر: 334
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آفتاب ڈھل گیا، باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کا ذکر کیا اور بیان فرمایا: ”اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کچھ پوچھنا چاہے وہ پوچھے، تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں تمہیں بتا دوں گا جب تک کہ اپنے اس مقام پر ہوں۔“ تو لوگ بہت زیادہ روئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار فرمایا: ”مجھ سے پوچھو۔“ پھر سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے پوچھا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا باپ حذافہ ہے۔“ پھر آپ باربار یہ فرمانے لگے کہ ”مجھ سے پوچھو۔“ تو امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ”ہم اللہ جل جلالہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے سے خوش ہیں۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے ابھی اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئی ہے، ایسی عمدہ چیز (جیسی جنت ہے) اور ایسی بری چیز (جیسی دوزخ ہے) کبھی نہیں دیکھی۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 334]