سیرت نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار
2642. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا سال
حدیث نمبر: 4023
- (وُلِدَ النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - عام الفيل).
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ یہ حدیث عبداللہ بن عباس اور قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4023]
2643. واقعہ اسرا و معراج
حدیث نمبر: 4024
- (أُتيتُ بالبُراقِ، وهو دابةٌ أبيضُ طويلٌ، فوقَ الحمارِ ودونَ البغلِ، يضعُ حافرَه عند منتهى طرفهِ، قال: فركبتُه حتى أتيتُ بيت المقدس، قال: فربطتُه بالحلقة التي يربطُ بها الأنبياءًُ، قال: ثم دخلت المسجد فصلّيتُ فيه ركعتين، ثم خرجت فجاءني جبريل عليه السّلامُ بإناءٍ من خمرٍ، وإناءٍ من لبنٍ؛ فاخترتُ اللبن، فقال جبريل عليه السلام: اخترتَ الفِطرةَ ثم عُرجَ بنا إلى السّماءِ، فاستفتح جبريل، فقيل: من أنت؟ قال: جبريلُ. قيل: ومن معك؟ قال: محمدٌ. قيل: وقد بُعثَ إليه؟ قال: قد بُعثَ إليهِ، ففُتحَ لنا؛ فإذا أنا بآدم، فرحب بي ودعا لي بخيرٍ. ثم عُرجَ بنا إلى السماء الثانية، فاستفتح جبريل عليه السلام، فقيل: من أنت؟ قال: جبريلُ. قيل: ومن معك؟ قال: محمّدٌ. قيل: وقد بُعثَ إليه؟ قال: قد بُعثَ إليهِ، ففتحَ لنا؛ فإذا أنا بابني الخالةِ: عيسى ابن مريم ويحيى بن زكريا صلوات الله عليهما، فرحّبا ودعَوا لي بخير. ثمَّ عُرجَ بي إلى السّماءِ الثالثة، فاستفتحَ جبريلُ، فقيل: من أنت؟ قال: جبريلُ. قيل: ومن معك؟ قال: محمد - صلى الله عليه وسلم -. قيل: وقد بُعثَ إليه؟ قال: قد بُعثَ إليه. ففتح لنا؛ فإذا أنا بيوسف- صلى الله عليه وسلم -؛ إذا هو قد أُعطيَ شطرَ الحُسنِ، فرحَّب ودعا لي بخير. ثم عُرجَ بنا إلى السماء الرّابعةِ، فاستفتح جبريل عليه السلام. قيل: من هذا؟ قال: جبريل. قيل: ومن معك؟ قال: محمد. قال: وقد بُعثَ إليه؟ قال: قد بعث إليه. ففُتح لنا، فإذا أنا بإدريس، فرحّب ودعا لي بخير، قال الله عز وجل: (ورفعناه مكاناً علياً). ثم عُرج بنا إلى السماءِ الخامسة، فاستفتح جبريل. قيل: من هذا؟ فقال: جبريل. قيل: ومن معك؟ قال: محمد. قيل: وقد بُعث إليه؟ قال: قد بعث إليه. ففتح لنا، فإذا أنا بهارون- صلى الله عليه وسلم -، فرحب ودعا لي بخير. ثم عرج بنا إلى السماء السادسة، فاستفتح جبريل عليه السلام، قيل: من هذا؟ قال: جبريل. قيل: ومن معك؟ قال: محمد. قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه، ففتح لنا؛ فإذا أنا بموسى - صلى الله عليه وسلم -، فرحب ودعا لي بخير. ثم عرج بنا إلى السماء السابعة، فاستفتح جبريل فقيل: من هذا؟ قال: جبريل. قيل: ومن معك؟ قال: محمد - صلى الله عليه وسلم -. قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه، ففتح لنا؛ فإذا أنا بإبراهيم - صلى الله عليه وسلم - مسنداً ظهره إلى البيت المعمور، وإذا هو يدخلُه كلَّ يوم سبعون ألف ملك لا يعودون إليه ثم ذهب بي إلى السِّدرةِ المنتهى، وإذا ورقُها كآذان الفِيَلةِ، وإذا ثَمَرُها كالقِلالِ، قال: فلما غَشِيَها من أمرِ اللهِ ما غَشِي؛ تغيرت، فما أحدٌ من خلقِ اللهِ يستطيعُ أن ينعتها؛ من حُسنها. فأوحى الله إليّ ما أوحى، ففرض عليَّ خمسين صلاة في كل يوم وليلة، فنزلتُ إلى موسى- صلى الله عليه وسلم -، فقال: ما فرضَ ربك على أمتك؟ قلت: خمسين صلاة، قال: ارجع إلى ربِّك فاسأله التخفيف؛ فإن أمتك لا يُطيقون ذلك؛ فإني قد بلوتُ بني إسرائيل وخَبَرتهم. قال: فرجعتُ إلى ربِّي، فقلت: يا رب! خفّف على أمتي، فحَطَّ عني خمساً، فرجعتُ إلى موسى، فقلتُ: حطّ عني خمساً. قال: إنَّ أمتك لا يطيقون ذلك؛ فارجع إلى ربك فاسأله التخفيف. قال: فلم أزل أرجع بين ربي تبارك وتعالى وبين موسى عليه السلام؛ حتى قال: يا محمد! إنَّهن خمسُ صلوات كل يوم وليلة، لكلِّ صلاة عشر؛ فذلك خمسون صلاة. ومن همّ بحسنة فلم يعملها؛ كُتبت له حسنة، فإنْ عملها كُتبت له عشراً، ومن همَّ بسيئة فلم يعملها؛ لم تكتب شيئاً، فإن عملها كُتبت سيئة واحدة. قال: فنزلتُ حتى انتهيت إلى موسى- صلى الله عليه وسلم -فأخبرتُه، فقال: ارجع إلى ربِّك فاسأله التخفيف. فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: فقلت: قد رجعت إلى ربي حتى استحييت منه).
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس براق لایا گیا، وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا سفید رنگ کا لمبا جانور تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی۔ میں اس پر سوار ہوا، (اور چل پڑا) حتیٰ کہ بیت المقدس میں پہنچ گیا، میں نے اس کو اس کڑے کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ دوسرے انبیاء بھی باندھتے تھے، پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ جب میں وہاں سے نکلا تو جبریل علیہ السلام شراب کا اور دودھ کا ایک ایک برتن لائے، میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ جبریل نے کہا: آپ نے فطرت کو پسند کیا ہے۔ پھر ہمیں آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ (جب ہم وہاں پہنچے تو) جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ پھر کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اس نے کہا: (جی ہاں) انہیں بلایا گیا ہے۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے آدم علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعا کی، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، پوچھا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا جبریل ہوں۔ فرشتوں نے پوچھا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبرائیل نے کہا: (جی ہاں!) ان کو بلایا گیا ہے۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا کو دیکھا، ان دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی۔ پھر ہمیں تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ فرشتوں نے پوچھا: کون؟ اس نے کہا: جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کہا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا: جی ہاں! انہیں بلایا گیا ہے۔ سو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا، (ان کی خوبصورتی سے معلوم ہوتا تھا کہ) نصف حسن ان کو عطا کیا گیا ہے۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ پوچھا گیا: کون؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ پھر پوچھا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! ان کو بلایا گیا ہے، پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں ادریس علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم نے ادریس کا مقام و مرتبہ بلند کیا۔ پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا، اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ کہا گیا: کون؟ اس نے کہا: میں جبریل ہوں۔ کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبریل نے جواب دیا: جی ہاں! انہیں بلایا گیا ہے، پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں ہارون علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور چھٹے آسمان پر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ کہا گیا: کون؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر پوچھا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ اس نے کہا: ہاں! پس ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے وہاں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا۔ پوچھا گیا: کون؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: ہاں! ان کو بلایا گیا ہے۔ سو دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا۔ وہ بیت معمور کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ (بیت معمور کی کیفیت یہ ہے کہ) ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتھیٰ کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور اس کا پھل مٹکوں کی مانند۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی چیز سے اسے ڈھانکا گیا تو (اس کی کیفیت یوں) بدل گئی کہ خلق خدا میں کوئی بھی اس کا حسن بیان نہیں کر سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی اور ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں اتر کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایا، انہوں نے پوچھا: تیرے رب نے تیری امت پر کیا کچھ فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کا سوال کرو، تیری امت (کے افراد) میں اتنی استطاعت نہیں ہے، میں نے بنی اسرائیل کو آزما لیا ہے اور ان کا تجربہ کر چکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: پس میں اپنے پروردگار کی طرف واپس چلا گیا اور کہا: اے میرے رب! میری امت کے لیے (نمازوں والے حکم میں) تخفیف کیجئیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹا اور ان کو بتلایا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں گئی ہیں، انہوں نے کہا تیری امت کو اتنی طاقت بھی نہیں ہو گی، اس لیے اپنے رب کے پاس جاؤ اور اس سے (مزید) کمی کا سوال کرو۔ آپ نے فرمایا: میں اسی طرح اپنے پروردگر اور موسیٰ کے درمیان آتا جاتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، ہر نماز (کے عوض) دس نمازوں کا ثواب ہے، (اس طریقے سے یہ) پچاس نمازیں ہو گئیں اور (مزید سنو کہ) جس نے نیکی کا قصد کیا اور (عملاً) نہیں کی تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ جائے گی اور اگر اس نے وہ نیکی عملاً کر لی تو اس کے لیے دس گنا ثواب لکھ دیا جائے گا اور جس نے برائی کا ارادہ کیا اور عملاً اس کا ارتکاب نہیں کیا، تو اس (کے حق میں کوئی گناہ) نہیں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے عملاً برائی کا ارتکاب کر لیا تو (پھر بھی) اس کے لیے ایک برائی لکھ دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نیچے اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا اور ان کو (ساری صورتحال کی) خبر دی۔ انہوں نے پھر کہا: اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور اس سے مزید تخفیف کا سوال کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کہا: میں اپنے پروردگار کی طرف ( باربار) لوٹ چکا ہوں۔ اب تو میں اپنے رب سے شرماتا ہوں۔“[سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4024]
حدیث نمبر: 4025
ـ لما انتهيْنا إلى بيْتِ المقْدِس؛ قال جبريلُ بإصبعهِ فخرجَ به الحَجَر، وشدّ به البُراق).
ابن برید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل نے اپنی انگلی سے پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس کے ساتھ باندھ دیا۔“[سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4025]
2644. واقعہ اسرا و معراج پر ابوجہل کا مذاق اور اس کا دندان شکن جواب
حدیث نمبر: 4026
- (لَمَّا كان ليلة أُسْرِي بِي، وأصبحتُ بمكةَ فَظِعْتُ بِأمْري، وعَرَفتُ أنَّ الناسَ مُكَذِّبِّي. فَقَعَدَ معتزلاً حزيناً. قال: فَمَرَّ عدوُّ اللهِ أبو جَهْلٍ، فجاء حتى جلس إليه، فقالَ له- كالمستهزئِ-: هل كانَ من شيءٍ؟ فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: نعم. قال: ما هو؟ قال: إنه أُسْريَ بي الليلةَ. قال: إلى أين؟ قال: إلى بيت المقدس. قال: ثم أصبحتَ بين ظَهْرانَيْنَا؟ قال: نعم. فلم يَرَ أنه يُكَذِّبُهًُ مخافة أن يجْحَدَهُ الحديثَ إذا دعا قومَهُ إليه، قال: أرأيت إن دعوتُ قومَكَ تُحَدِّثُهُم ما حَدَّثْتَنِي؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: نعم فقال: هَيَّا مَعشَرَ بني كعبِ بن لُؤيٍّ! فانتفضت إليه المجالس؛ وجاءوا حتى جَلَسُوا إليهما، قال: حَدِّثْ قومَكَ بما حَدِّثْتَنِي. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إني أُسْرِيَ بي الليلة. قالوا: إلى أين؟ قال: إلى بيتِ المقدس. قالوا: ثم أصبحتَ بين ظَهْرَانَيْنا؟ قال: نعم. قال: فَمِنْ بين مُصَفِّقٍ، ومن بين واضعٍ يَدَهُ على رأسِهِ متعجباً للكذبِ؛ زعم! قالوا: وهل تستطيعُ أن تَنْعَتَ لنا المسجد- وفي القومِ مَنْ قَد سافَرَ إلى ذلك البلد ورأى المسجد-؟! فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: فذهبتُ أنعتُ، فما زلتُ أَنْعَتُ حتى الْتَبَسَ عليَّ بعضُ النَّعْتِ. قال: فَجِيءَ بالمسجد وأنا أنظُرُ حتى وُضِعَ دُونَ دار عقالٍ- أوعقيلٍ -، فنعتُّه وأنا أنظرُ إليه- قال: وكان مع هذا نعتُ لم أحفظه-قال: فقال القوم: أما النعت؛ فوالله! لقد أصاب).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس رات مجھے معراج کا سفر کرایا گیا اور بوقت صبح مکہ میں تھا، میں گھبرایا ہوا تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے۔“ سو آپ پریشان ہو کر علیحدہ بیٹھ گئے۔ اتنے میں وہاں سے اللہ کے دشمن ابوجہل کا گزر ہوا، وہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور مذاق کرتے ہوئے کہنے لگا: کیا کچھ ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس نے کہا کیا ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آج رات مجھے سیر کروائی گئی ہے۔“ ابوجہل بولا کہاں کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت المقدس کی۔“ ابوجہل نے کہا: پھر آپ صبح کے وقت ہمارے پاس بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں۔“ ابوجہل نے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت تکذیب نہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ لوگوں کو جمع کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا انکار کر دیں، اس لیے ابوجہل نے کہا: اگر میں آپ کی قوم کو بلاؤں تو کیا یہ بات ان کو بیان کرو گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں۔“ ابوجہل نے آواز دی او بنو کعب بن لؤی آ جاؤ۔ (یہ آواز سنتے ہی) لوگ پہنچ گئے اور ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جو بات مجھے بیان کی ان کو سناؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے آج رات سیر کرائی گئی ہے۔ ” لوگوں نے پوچھا: کہاں کا سفر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت المقدس کا۔ ” لوگوں نے کہا: پھر آپ صبح کے وقت یہاں (مکہ میں ( واپس بھی آ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ” یہ سن کر کوئی تالیاں بجانے لگا اور کسی نے اس جھوٹ پر تعجب کرتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ لیا۔ چونکہ بعض لوگوں نے اس شہر کا سفر کیا ہوا تھا اور مسجد (اقصیٰ) دیکھی ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے کہا: کیا آپ ہمارے لیے مسجد الاقصیٰ کے اوصاف بیان کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اوصاف بیان کرنا شروع کئے، میں وضاحت کرتا گیا، لیکن بعض علامتیں مجھ پر خلط ملط ہو گئیں، اس لیے مسجد اقصٰی کو لایا گیا اور عقال یا عقیل کے گھر کے سامنے رکھ دیا گیا، میں اسے دیکھ کر اوصاف بیان کرنے لگا، پھر بھی کچھ نشانیاں مجھے یاد نہیں رہی تھیں۔ ” لوگوں نے کہا: جہاں تک علامتوں کا مسئلہ ہے، وہ تو اللہ کی قسم! انہوں نے درست بیان کر دی ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4026]
2645. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات
حدیث نمبر: 4027
-" ما تقولون؟ إن كان أمر دنياكم فشأنكم، وإن كان أمر دينكم فإلي".
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں کل پانی نہ ملا تو پیاس غالب آ جائے گی۔“ جلد باز لوگ پانی (کی تلاش) کے ارادے سے چل پڑے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری ایک طرف جھکنے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آ گئی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اونگھ کی وجہ سے) جھکنے لگے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر جھکے کہ قریب تھا کہ سواری سے گر پڑیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے اور پوچھا: ”یہ آدمی کون ہے؟“، میں نے کہا: ابوقتادہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کب سے چل رہے ہو؟“ میں نے کہا: رات سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اﷲ تیری حفاظت کرے جس طرح کہ تو نے اس کے رسول کی حفاظت کی ہے۔“ پھر فرمایا: ”اگر ہم سستا لیں (تو بہتر ہو گا)۔“ پھر ایک درخت کی طرف مڑے اور وہیں اتر پڑے اور فرمایا: ”دیکھو، آیا کوئی آدمی نظر آ رہا ہے؟“ میں نے کہا: یہ ایک سوار ہے، یہ دو سوار آ گئے ہیں، یہاں تک کہ کل سات افراد جمع ہو گئے۔ ہم نے کہا ذرا نماز فجر کا خیال رکھنا، کہیں سو ہی نہ جائیں۔ (لیکن ہم سب سو گئے اور) سورج کی گرمی نے ہم کو جگایا، ہم بیدار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر چل پڑے، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تھوڑے ہی چلے تھے کہ اتر پڑے اور پوچھا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، میرے پاس وضو کا برتن ہے، اس میں معمولی سا پانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے آؤ۔“ میں لے آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی لیجئیے، پانی لیجئیے۔“ سب لوگوں نے وضو کر لیا اور لوٹے میں ایک گھونٹ پانی کا باقی بچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو قتادہ! اس پانی کو محفوظ کر لو، عنقریب اس کی بنا پر عظیم (معجزہ) رونما ہو گا۔“ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، لوگوں نے فجر سے پہلے والی دو سنتیں پڑھیں اور پھر نماز فجر ادا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ہم بھی۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ ہم سے نماز میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا کہہ رہے ہو؟ اگر کوئی دنیوی بات ہے تو خود حل کر لو اور اگر دینی معاملہ ہے تو میری طرف لاؤ۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے نماز میں کمی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیند (کی وجہ سے تاخیر ہونے سے) کوئی کوتاہی نہیں ہوتی، کوتاہی تو یہ ہے کہ جیتے جاگتے (نماز کو لیٹ کر دیا جائے)، اگر اس طرح ہو جائے (جس طرح کہ آج ہوا ہے تو) اسی وقت نماز پڑھ لیا کرو، اور دوسرے دن نماز اپنے وقت میں ادا کیا کرو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”قوم کے بارے میں اندازہ لگاؤ۔“ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کل کہا تھا کہ اگر کل پانی نہ ملا تو پیاس غالب آ جائے گی اور ہمارے پاس تو پانی ہے۔ فرمایا ”جب صبح ہوئی اور (بڑی جماعت کے) لوگوں نے اپنے نبی کو مفقود پایا تو کوئی کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں پانی پر ہوں گے۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، انہوں نے کہا لوگو! یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کی طرف تم سے سبقت لے جائیں اور تمہیں پیچھے چھوڑ جائیں اور اگر لوگ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کر لیں تو وہ ہدایت پا جائیں گے۔ یہ کلمات تین دفعہ کہے، جب دن کی سخت گرمی شروع ہوئی اور لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نظر آ گئے، تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں اور حلق پیاس کی وجہ سے سوکھ کر کانٹا بن گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تم پر کوئی ہلاکت نازل نہیں ہو گی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوقتادہ! وضو کا برتن لاؤ (جس میں ایک گھونٹ پانی تھا)۔“ میں لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پیالے کا ڈھکن اٹھاؤ۔“ میں نے ڈھکن کھولا اور پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں پانی بہاتے گئے اور لوگوں کو پلاتے گئے، لوگ بڑی تعداد میں اکٹھے ہو گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اچھے انداز میں بھرو، ہر کوئی سیراب ہو کر لوٹے گا۔“ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام لوگوں نے پانی پی لیا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے پانی انڈیلا اور فرمایا: ”ابوقتادہ! پیو۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔“ اس لیے پہلے میں نے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا اور وضو دان میں اتنا پانی موجود تھا، جتنا کہ پہلے تھا۔ اس دن لشکر کی تعداد تین سو (۳۰۰) تھی۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4027]
حدیث نمبر: 4028
- (ما من شيء إلا يعلم أنّي رسول الله؛ إلا كفرة أو فسقة الجن والإنس)
عمر بن عبداللہ بن یعلیٰ بن مرہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تین ایسی چیزیں دیکھیں ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھیں (۱) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا، آپ کا گزر ایک لڑکی کے پاس سے ہوا، اس کے پاس اس کا بیٹا تھا، اس پر جنونی کیفیت طاری تھی، میں نے اتنی سخت دیوانگی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس لڑکی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے بیٹے کی حالت ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں (اب کیا کیا جائے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہتی ہو تو میں اس کے لیے دعا کر دیتا ہوں۔ ”پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی اور چل دیے۔ (۲) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک اونٹ گزرا، اس کی گردن جھکی ہوئی تھی اور وہ بلبلا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے مالک کو میرے پاس لاؤ۔“(جب وہ آیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اونٹ کہہ رہا ہے کہ میں اپنے مالک کے پاس پیدا ہوا تھا، انہوں نے مجھے خوب استعمال کیا، اب جب میں بوڑھا ہو گیا تو اس نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے۔ (۳) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو علیحدہ علیحدہ درخت دیکھے اور مجھے فرمایا: ”جاؤ اور ان درختوں سے کہو کہ (ایک مقام پر) جمع ہو جاؤ۔“ سو وہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی اوٹ میں بیٹھ کر) قضائے حاجت کر لی اور فرمایا: ”جاؤ اور ان سے کہو کہ علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو اسی بچے سے آپ کا گزر ہوا، وہ دوسریے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور اس کی ماں نے اس کے لیے چھ مینڈھے پال رکھے تھے۔ اس نے دو مینڈ ھے قربان کئے اور کہا کہ اسے دوبارہ جنون والی بیماری نہیں لگی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز جانتی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، سوائے کافر اور فاسق جنوں اور انسانوں کے۔“[سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4028]
2646. مہر نبوت
حدیث نمبر: 4029
-" كان خاتم النبوة في ظهره بضعة ناشزة".
ابونضرہ عوفی کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر (نبوت) کے بارے میں سوال کیا۔ انہوں نے کہا: مہر نبوت آپ کی پشت مبارک میں ابھرے ہوئے گوشت کا ایک ٹکڑا تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4029]
2647. وحی کی کیفیت اور شدت
حدیث نمبر: 4030
-" كان إذا نزل الوحي عليه ثقل لذلك، وتحدر جبينه عرقا كأنه الجمان، وإن كان في البرد".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ مشقت میں پڑ جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے موتیوں کی طرح پسینہ بہتا تھا، اگرچہ سردی کا موسم ہوتا۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4030]
2648. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ابلیس کا مغلوب ہونا
حدیث نمبر: 4031
- (لو رأيتُموني وإبليس فأهويتُ بيدي، فما زلتُ أخنقُه حتى وجدتُ بردَ لُعابِه بين إصبعيَّ هاتين: الإبهام والتي تليها، ولولا دعوةُ أخي سُليمان؛ لأصبح مربوطاً بساريةٍ من سواري المسجد، يتلاعبُ به صبيانُ المدينة، فمن استطاع منكم أن لا يحُول بينَه وبينَ القبلة أحدٌ؛ فليفعل).
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز فجر ادا کی اور وہ (ابوسعید) آپ کے پیچھے تھے، جب آپ نے قرأت کی تو وہ آپ پر خلط ملط ہونے لگی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: ”کاش کہ تم مجھے اور ابلیس کو دیکھتے، میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کا گلا گھونٹتا رہا، حتیٰ کہ مجھے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی کے درمیان اس کے لعاب کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اگر میرے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ اس حال میں صبح کرتا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا اور مدینے کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ تم میں سے جس میں یہ استطاعت ہو کہ (دوران نماز) اس کے اور اس کے قبلہ کے مابین کوئی چیز حائل نہ ہو تو وہ ایسا ہی کرے۔“[سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4031]
2649. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دفعہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنے کا خواب دکھایا گیا
حدیث نمبر: 4032
- (أُرتيكِ في المنامِ مرّتينِ؛ ورجلٌ يحملُك في سَرَقة من حريرٍ، فيقولُ: هذه امرأتُك. فأقولُ: إن يكُ هذا من عندِ الله عز وجل يُمضِهِ).
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تم مجھے خواب میں دو مرتبہ دکھائی گئی تھی، ایک آدمی تجھے ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھا کر (میرے پاس) آیا اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہے۔ میں نے کہا: اگر یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اس کو نافذ کر دے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4032]