الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
الجنة والنار
جنت اور جہنم
2560. اللہ تعالیٰ کی رضامندی جنت کی عظیم نعمت ہو گی
حدیث نمبر: 3920
-" إذا دخل أهل الجنة الجنة، يقول الله عز وجل: هل تشتهون شيئا فأزيدكم؟ فيقولون: ربنا وما فوق ما أعطيتنا؟ قال: فيقول: رضواني أكبر".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمہیں (‏‏‏‏مزید) کسی چیز کی خواہش ہے، تو وہ بھی پوری کر دیتا ہوں؟ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! جو کچھ تو نے عطا کیا، اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے (‏‏‏‏ کہ اس کے حصول کی آرزو کی جائے)۔ وہ کہے گا: (‏‏‏‏تم سے) میرا راضی ہو جانا سب سے بڑی (‏‏‏‏نعمت) ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3920]
2561. جنت الفردوس کا سوال کرنا چاہیے
حدیث نمبر: 3921
-" إذا سألتم الله فسلوه الفردوس، فإنه سر الجنة".
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو، کیونکہ وہ جنت کا اعلیٰ و افضل حصہ مقام ہے۔ ‏‏‏‏ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3921]
2562. بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد
حدیث نمبر: 3922
-" ليدخلن الجنة من أمتي سبعون ألفا لا حساب عليهم ولا عذاب، مع كل ألف سبعون ألفا".
شریح بن عبید کہتے ہیں: سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ حمص کے علاقے میں بیمار ہو گئے، اس وقت عبداللہ بن قرط ازدی حمص کا گورنر تھا، اس نے ان کی بیمار پرسی نہیں کی۔ ایک دن کلاعی قبیلے کا آدمی بیمار پرسی کے لیے ثوبان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ثوبان رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: کیا تم لکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: لکھو۔ اس نے عبداللہ بن قرط کو یہ خط لکھا: مولائے رسول ثوبان کی طرف سے، بات یہ ہے کہ اگر تیرے علاقے میں موسیٰ اور عیسیٰ کا غلام (‏‏‏‏میری طرح بیمار) ہوتا تو تو ضرور اس کی بیمار پرسی کرتا۔ پھر خط کو بند کر دیا اور سیدنا ثوبان نے اس سے پوچھا: کیا یہ خط اس تک پہنچا دو گے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ وہ خط لے کر چلا گیا اور ابن قرط تک پہنچا دیا۔ جب اس نے خط پڑھا تو گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ لوگوں نے کہا: اسے کیا ہوا ہے؟ آیا کوئی نیا معاملہ پیش آیا ہے؟ وہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ان کی بیمار پرسی کی، ان کے پاس کچھ دیر بیٹھا رہا اور جب اٹھ کر جانے لگے تو انہوں نے اس کی چادر پکڑ لی اور کہا: بیٹھ جاؤ، میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے ستر ہزار افراد حساب و کتاب اور عقاب و عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے، ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار بھی داخل ہوں گے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3922]
2563. جنت میں داخل ہونے والا پہلا گروہ
حدیث نمبر: 3923
-" أتعلم أول زمرة تدخل الجنة من أمتي؟ قلت: الله ورسوله أعلم، فقال: المهاجرون يأتون يوم القيامة إلى باب الجنة ويستفتحون، فيقول لهم الخزنة: أو قد حوسبتم؟ فيقولون: بأي شيء نحاسب وإنما كانت أسيافنا على عواتقنا في سبيل الله حتى متنا على ذلك؟ قال: فيفتح لهم، فيقيلون فيه أربعين عاما قبل أن يدخلها الناس".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏کیا تم کو میری امت کی اس جماعت کے بارے میں علم ہے جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گی؟ ‏‏‏‏ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏وہ جماعت مہاجرین کی ہے۔ وہ روز قیامت جنت کے دروازے پر آ کر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کریں گے۔ دربان ان سے پوچھے گا: آیا تمہارا حساب و کتاب ہو چکا ہے؟ وہ کہیں گے: کس موضوع پر ہم سے حساب کتاب لیا جائے؟ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مرتے دم تک ہماری تلواریں، ہمارے کندھوں پر رہیں۔ سو ان کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا اور (‏‏‏‏وہ جنت میں داخل ہو کر) عام لوگوں کے داخلے سے پہلے چالیس سال کا قیلولہ بھی کر چکے ہوں گے۔ ‏‏‏‏ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3923]
حدیث نمبر: 3924
-" أول ثلة (¬1) يدخلون الجنة الفقراء المهاجرون الذين تتقى بهم المكاره، إذا أمروا سمعوا وأطاعوا وإن كانت للرجل منهم حاجة إلى السلطان لم تقض له حتى يموت وهي في صدره، وإن الله عز وجل ليدعو يوم القيامة الجنة فتأتي بزخرفها وزينتها فيقول: أين عبادي الذين قاتلوا في سبيلي وقوتلوا وأوذوا في سبيلي وجاهدوا في سبيلي، ادخلوا الجنة، فيدخلونها بغير حساب. وتأتي الملائكة فيسجدون، فيقولون: ربنا نحن نسبح بحمدك الليل والنهار ونقدس لك، من هؤلاء الذين آثرتهم علينا؟ فيقول الرب عز وجل: هؤلاء عبادي الذين قاتلوا في سبيلي وأوذوا في سبيلي، فتدخل عليهم الملائكة من كل باب * (سلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبى الدار) * [الرعد: 24]".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں داخل ہونے والی سب سے پہلی جماعت فقراء مہاجرین کی ہو گی، جن کے ذریعے مکروہات سے بچا جاتا ہے، جب انہیں حکم دیا جاتا ہے تو وہ سنتے اور اطاعت کرتے ہیں، اگر ان میں سے کسی کو بادشاہ سے کوئی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ پوری نہیں کی جاتی، یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے اور وہ ضرورت اس کے سینے میں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن جنت کو بلائے گا، وہ زینت و سجاوٹ اور نمائش و آرائش کے ساتھ آئے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اعلان کرے گا میرے بندے کہاں ہیں جنہوں نے میرے راستے میں قتال کیا، اور ان سے قتال کیا گیا، ان کو میرے راستے میں تکالیف دی گئیں اور انہوں نے میرے راستے میں جدوجہد کی۔ (‏‏‏‏میرے بندو!) تم جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (‏‏‏‏یہ منظر دیکھ کر) فرشتے آ کر سجدہ کریں گے اور کہیں گے: اے ہمارے ربّ! ہم دن رات تیری تسبیح و تقدیس بیان کرتے تھے، لیکن یہ کون لوگ ہیں جنہیں تو نے ہم پر ترجیح دی؟ ربّ تعالیٰ فرمائے گا: یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میرے راستے میں جہاد کیا، انہیں میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں۔ سو فرشتے ہر دروازے سے ان پر داخل ہو کر کہیں گے: «سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ» ‏‏‏‏تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (‏‏‏‏بدلہ) ہے اس دار آخرت کا (‏‏‏‏سورہ رعد: ۲۴)۔ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3924]
حدیث نمبر: 3925
- (إنّ أول زمرة يدخلون الجنة: على صورة القمر ليلة البدر، والذين يلونهم: على أشدّ كوكب دري في السّماء إضاءةً؛ لا يبولون، ولا يتغوّطون، ولا يمتخطون، ولا يتفلون، أمشاطهم الذهب، ورشحُهم المسكُ، ومجامرهم الألوّة، وأزواجهم الحور العين، أخلاقُهم على خلق رجل واحد، على صورة أبيهم آدم؛ ستون ذراعاً في السماء).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلا طائفہ جو جنت میں داخل ہو گا، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح (‏‏‏‏چمکتے) ہوں گے۔ پھر ان کے بعد داخل ہونے والوں کے چہرے، آسمان پر سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، وہ تھوکیں گے نہ ناک سنکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی، ان کا پسینہ کستوری (‏‏‏‏کی طرح خوشبودار) ہو گا اور ان کی انگیٹھیوں میں (‏‏‏‏جلانے کے لیے) خوشبودار لکڑی ہو گی، ان کی بیویاں موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، سب (‏‏‏‏جنتی لوگ) ایک ہی آدمی کی ساخت پر اپنے باپ آدم علیہ السلام کی شکل و صورت پر ہوں گے، بلندی (‏‏‏‏قد) میں وہ ساٹھ (‏‏‏‏ساٹھ) ہاتھ ہوں گے (‏‏‏‏جیسے سیدنا آدم علیہ السلام تھے)۔ ‏‏‏‏ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3925]
حدیث نمبر: 3926
-" أول زمرة تدخل الجنة على صورة القمر ليلة البدر والثانية على لون أحسن كوكب دري في السماء لكل رجل منهم زوجتان، على كل زوجة سبعون حلة يبدو مخ ساقها من ورائها".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا، ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح (‏‏‏‏چمکتے) ہوں گے، پھر دوسرا گروہ داخل ہو گا جن کا رنگ آسمان پر سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح چمکتا ہو گا۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے دو بیویاں ہوں گی، ہر بیوی نے ستر عمدہ پوشاکیں زیب تن کی ہوئی ہوں گی اور ان کے بیچ میں سے اس کی پنڈلی کی ہڈی کا گودا نظر آ رہا ہو گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3926]
حدیث نمبر: 3927
-" ليس في الجنة أعزب".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: خواتین و حضرات، فخر و مباہاۃ میں پڑ گئے۔ انہوں نے کہا: جنت میں عورتوں کی تعداد مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہو گی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور کہا: تم لوگ ابوہریرہ کی بات نہیں سن رہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں داخل ہونے والی پہلی جماعت کے بارے میں فرمایا: ‏‏‏‏ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح (‏‏‏‏چمکتے) ہوں گے اور دوسرے گروہ (‏‏‏‏کے چہرے) آسمان کے سب سے زیادہ چمکدار ستارے کی طرح (‏‏‏‏ ‏‏‏‏تابناک) ہوں گے، ہر ایک جنتی کی دو بیویاں ہوں گی۔ ان کی ہڈی کا گودا، گوشت میں سے نظر آئے گا اور جنت میں کوئی مرد یا عورت غیر شادی شدہ نہیں ہو گی۔ ‏‏‏‏ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3927]
2564. جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد اور ادنیٰ مرتبت جنتی کی کیفیت
حدیث نمبر: 3928
-" آخر من يدخل الجنة رجل، فهو يمشي مرة ويكبو مرة وتسفعه النار مرة، فإذا ما جاوزها التفت إليها، فقال: تبارك الذي نجاني منك، لقد أعطاني الله شيئا ما أعطاه أحدا من الأولين والآخرين. فترفع له شجرة، فيقول: أي رب أدنني من هذه الشجرة لأستظل بظلها، وأشرب من مائها، فيقول الله عز وجل: يا ابن آدم! لعلي إن أعطيتكها سألتني غيرها؟ فيقول: لا يا رب، ويعاهده أن لا يسأله غيرها، وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها، ويشرب من مائها. ثم ترفع له شجرة هي أحسن من الأولى، فيقول: أي رب أدنني من هذه لأشرب من مائها، وأستظل بظلها، لا أسألك غيرها. فيقول: يا ابن آدم! ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها؟ - فيقول -: لعلي إن أدنيتك منها تسألني غيرها؟ فيعاهده أن لا يسأله غيرها، وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها ويشرب من مائها. ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي أحسن من الأوليين، فيقول: أي رب أدنني من هذه لأستظل بظلها وأشرب من مائها، لا أسألك غيرها. فيقول: يا ابن آدم! ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها؟ قال: بلى يا رب، هذه لا أسألك غيرها، وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فإذا أدناه منها فيسمع أصوات أهل الجنة، فيقول: أي رب أدخلنيها! فيقول: يا ابن آدم! ما يصريني منك؟ أيرضيك أن أعطيك الدنيا ومثلها معها؟ قال: يا رب! أتستهزئ مني وأنت رب العالمين؟ - فضحك ابن مسعود، فقال: ألا تسألوني مم أضحك؟ فقالوا: مم تضحك؟ قال: هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: مم تضحك يا رسول الله؟ قال: من ضحك رب العالمين حين قال: أتستهزئ مني وأنت رب العالمين؟ - فيقول: إني لا أستهزئ منك، ولكني على ما أشاء قادر. (وفي رواية: قدير).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والے آدمی کی کیفیت یہ ہو گی کہ وہ (‏‏‏‏ ‏‏‏‏جہنم سے نکلنے کے لیے) چلتے چلتے منہ کے بل گرے گا، آگ اس کے چہرے کو جھلستی رہے گی۔ جب وہ جہنم سے گزر جائے گا تو اسے مخاطب ہو کر کہے گا: وہ ذات بابرکت ہے جس نے مجھے تجھ سے نجات دلائی اور مجھے (‏‏‏‏تجھ سے آزاد کر کے) جو کچھ عطا کیا وہ پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اتنے میں اسے ایک درخت نظر آئے گا، وہ کہے گا: میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب پہنچا دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! (‏‏‏‏پہلے یہ معاہدہ کر کہ) اگر میں تیرا یہ مطالبہ پورا کر دوں، تو تو کسی اور چیز کا سوال نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے ربّ! وہ اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان کرے گا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، لیکن (‏‏‏‏آگے چل کر) اس کا ربّ اس کو معذور سمجھے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ (‏‏‏‏بندہ) صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا، وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور پانی پیئے گا۔ اتنے میں اسے اس درخت کی بہ نسبت ایک اور خوبصورت درخت نظر آئے گا۔ وہ کہے گا: ‪‬ اے میرے ربّ! مجھے فلاں درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا پانی پی سکوں اور اس کے سائے میں آرام کر سکوں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ مزید کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے مزید مطالبہ نہ کرنے کا معاہدہ نہیں کیا تھا؟ اب اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو تو مزید کوئی مطالبہ تو نہیں کرے گا؟ وہ آئندہ کوئی سوال نہ کرنے کا عہد و پیمان کرے گا۔ لیکن اس کا ربّ اسے آئندہ بھی معذور سمجھے گا کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (‏‏‏‏دوسرے) درخت کے پاس پہنچا دے گا، وہ اس کے سائے میں بیٹھے گا اور وہاں کا پانی پئیے گا۔ اتنے میں اسے پہلے دونوں درختوں سے حسین تیسرا درخت دکھائی دے گا، جو جنت کے دروازے کے قریب ہو گا۔ وہ (‏‏‏‏عدم صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے) دعا کرے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں اور مزید میں تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے پہلے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، اے میرے ربّ! بس یہی مطالبہ ہے، اس کے بعد کسی چیز کی سوال نہیں کروں گا، لیکن اس کا ربّ اسے معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ (‏‏‏‏آئندہ) ایسی چیزیں دیکھے گا جن پر صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (‏‏‏‏اس تیسرے درخت کے) قریب کر دے گا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے جنت میں داخل ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کون سی چیز مجھے تیری دعا قبول کرنے سے روک سکتی ہے؟ (‏‏‏‏ میں تو قادر مطلق ہوں۔ اے میرے بندے!) اگر میں تجھے دنیا اور اس کی مثل ایک اور دنیا کے برابر دے دوں تو تو راضی ہو جائے گا؟ وہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ (‏‏‏‏یہ تجھے زیب نہیں دیتا) ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم لوگ مجھ سے میرے ہنسنے کے بارے میں دریافت نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: اچھا، ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ بتاؤ۔ انہوں نے کہا: (‏‏‏‏در اصل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر اسی طرح ہنسے تھے، صحابہ (‏‏‏‏رضوان اللہ عنہم اجمعین) نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اس بندے نے کہا: (‏‏‏‏اے اللہ!) تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ ہنس پڑے، اس لیے میں بھی ہنس پڑا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا، میں تو جو چاہتا ہوں، وہ کرنے پر قادر ہوں۔ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3928]
حدیث نمبر: 3929
- (إنّ أدنَى أهلِ الجنَّةِ منزلةً: رجلٌ صرفَ اللهُ وجهَه عن النارِ قِبَل الجنةِ، ومثّل له شجرةً ذاتَ ظلٍّ، فقالَ: أيْ ربِّ! قدِّمني إلى هذه الشجرةِ؛ فأكونَ في ظلِّها! فقال الله: هل عسيتَ إن فعلتُ أن تسألني غيرها؟ قال: لا وعزَّتكَ! فقدَّمه اللهُ إليها، ومثّل له شجرةً ذاتَ ظلٍّ وثَمرٍ، فقال: أيْ ربِّ! قدّمني إلى هذِه الشجرةِ؛ أكونُ في ظلّها، وآكلُ من ثَمَرها! فقال اللهُ له: هل عسيْتَ إن أعطيتُك ذلكَ أن تسأَلني غيرَه؟ فيقولُ: لا وعزَّتك! فيقدِّمه اللهُ إليها، فتُمثّل له شجرةٌ أخرى ذات ظلٍّ وثمرٍ وماءٍ، فيقولُ: أيْ ربّ! قدّمني إلى هذه الشّجرةِ؛ أكونُ في ظلّها، وآكلُ من ثمرها، وأشربُ من مائها! فيقولُ له: هل عسيتَ إن فعلتُ أن تسأَلني غيرَه؟ فيقولُ: لا وعزَّتك! لا أسأَلكَ غيرَه. فيقدِّمه اللهُ إليها، فيبرز له بابُ الجنّةِ، فيقولُ: أيْ ربِّ! قدّمني إلى بابِ الجنّة؟ فأكونَ تحتَ نجافِ الجنّة، وأَنظرَ إلى أهلها! فيقدّمه اللهُ إليها، فيرَى أهلَ الجنّةِ وما فيها، فيقولُ: أيْ ربِّ! أدْخِلني الجنّةَ. قال: فيدخلُه اللهُ الجنّةَ، قال: فإذا دخلَ الجنّةَ قال: هذا لي؟! قال: فيقولُ الله عزّ وجلّ له: تمنَّ! فيتمنَّى، ويذكِّره اللهُ: سلْ من كذا وكذا؛ حتّى إذا انقطعت به الأمانيُّ؛ قال اللهُ عزّ وجلّ: هو لكَ، وعشَرةُ أمثالهِ. قال: ثمّ يدخلُ الجنّةَ، يدخلُ عليه زوجتَاه من الحورِ العين، فيقولانِ له: الحمْدُ لله الذي أَحياك لنا، وأحيانا لكَ! فيقولُ: ما أُعطِيَ أحدٌ مثْلَ ما أُعطيتُ! قال: وأَدنى أهلِ النّار عذَاباً؟ يُنْعَلُ من نارٍ بنعلينِ؛ يغْلي دماغُه من حرارةِ نعْلَيه).
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏اہل جنت میں سب سے ادنیٰ مقام والے آدمی کی تفصیل یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا رخ جہنم سے پھیر کر جنت کی طرف کریں گے، اسے ایک سایہ دار درخت کی شبیہ نظر آئے گی۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک پہنچا دے، تاکہ میں اس کے سائے میں آرام کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں ایسے کر دوں تو تو مزید کسی چیز کا سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت تک پہنچا دے گا۔ اتنے میں اسے سایہ دار اور پھل دار درخت نظر آئے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک آگے لے جا، تاکہ اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پھل کھا سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں تیرا یہ مطالبہ بھی پورا کر دوں تو تو مزید سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کے قسم نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے وہاں تک پہنچا دے گا۔ اسے وہاں سے سائے، پھل اور پانی والے درخت کی شبیہ دکھائی دے گی، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک آگے لے جا، تاکہ اس کے سائے میں آرام کر سکوں، اس کا پھل کھا سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں ایسا کر دوں تو تو مزید تو کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت تک پہنچا دیں گے۔ وہاں سے اسے جنت کا دروازہ دکھائی دے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے باب جنت تک لے جا، تاکہ جنت کے شیڈ کے نیچے بیٹھ سکوں اور جنتیوں کو دیکھ سکوں۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے پاس پہنچا دے گا۔ وہ جنت کے لوگوں اور نعمتوں کو دیکھے گا اور کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ جب وہ جنت میں داخل ہو گا تو پوچھے گا: یہ جگہ میری ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو تمنا کر۔ وہ تمنا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اسے یاد کرائیں گے کہ اس قسم کی نعمتوں کی آرزوئیں کرتا جا، یہاں تک کہ اس کی تمناؤں کی انتہا ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے تیری تمنا اور اس کا دس گنامزید ملے گا۔ پھر وہ جنت میں (‏‏‏‏اپنے محل میں) داخل ہو گا، دو آہوچشم حوریں اس کے پاس آ کر کہیں گی: ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے تجھے ہمارے لیے اور ہمیں تیرے لیے زندہ کیا۔ وہ کہے گا: جو کچھ مجھے ملا، یہ کسی جنتی کو نہیں دیا گیا۔ اور اہل جہنم میں سب سے کم عذاب والا وہ شخص ہو گا جسے آگ کے دو جوتے پہنائے جائیں گے اور ان کی حرارت کی وجہ سے اس کا دماغ ابلنا شروع ہو جائے گا۔ ‏‏‏‏ [سلسله احاديث صحيحه/الجنة والنار/حدیث: 3929]

1    2    3    4    5    Next