الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات
ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق
2452. اللہ تعالیٰ کے عرش اور کرسی کا آسمانوں سے موازنہ، اللہ تعالیٰ کی کرسی کی صفات
حدیث نمبر: 3783
-" ما السموات السبع في الكرسي إلا كحلقة ملقاة بأرض فلاة وفضل العرش على الكرسي كفضل تلك الفلاة على تلك الحلقة".
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں مسجد الحرام میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی آیت افضل ہے، جو آپ پر نازل ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آیۃ الکرسی ہے۔ (‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کی اس وسیع) کرسی کے مقابلے میں سات آسمان اس طرح ہیں، جیسے بیابان زمین میں کوئی چھلا پڑا ہو اور پھر کرسی کے مقابلے میں (‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کے) عرش کی ضخامت اس طرح ہے جیسے اس چھلے کے مقابلے میں بیابان کا وجود ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3783]
2453. آمد جبریل کا ایک انداز
حدیث نمبر: 3784
ـ (أتانِي جبريلُ في خَضِرٍ معلّقٍ به الدُّرُّ).
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل ‏‏‏‏علیہ السلام میرے پاس ہرے رنگ کے لباس میں آئے، اس کے ساتھ موتی ٹانکے ہوئے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3784]
2454. آسمان کا چڑچڑانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی چڑچڑاہٹ کو سننا اور اس کی وجہ
حدیث نمبر: 3785
-" أتسمعون ما أسمع؟ قالوا: ما نسمع من شيء، قال: إني لأسمع أطيط السماء وما تلام أن تئط وما فيها موضع شبر إلا وعليه ملك ساجد أو قائم".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں تشریف فرما تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم سن رہے ہو جو کچھ میں سن رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: ہم تو کوئی چیز نہیں سن رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ میں تو آسمان کے چڑچڑانے کی آواز سن رہا ہوں اور اسے چڑچڑانے پر ملامت بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہاں تو ایک بالشت کے بقدر بھی جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدہ یا قیام نہ کر رہا ہو۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3785]
حدیث نمبر: 3786
-" هل تسمعون ما أسمع؟ قالوا: ما نسمع من شيء. قال: إني لأسمع أطيط السماء، وما تلام أن تئط وما فيها موضع شبر إلا وعليه ملك ساجد أو قائم".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم میں تشریف فرما تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پوچھنے لگے: جو میں سن رہا ہوں، کیا تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم تو کچھ بھی نہیں سن رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تو آسمان کا چرچرانا سنائی دے رہا ہے، اور اسے یہی زیب دیتا ہے کہ وہ چرچراتا رہے، کیونکہ اس میں ایک بالشت کے بقدر جگہ بھی ایسی نہیں، جہاں کوئی فرشتہ سجدے یا قیام کی حالت میں نہ ہو۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3786]
حدیث نمبر: 3787
-" ما في السماء الدنيا موضع قدم إلا عليه ملك ساجد أو قائم، فذلك قول الملائكة: * (وما منا إلا له مقام معلوم، وإنا لنحن الصافون، وإنا لنحن المسبحون) *".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏آسمان دنیا میں ایک قدم کے بقدر بھی جگہ ایسی نہیں ہے، کہ جہاں کوئی فرشتہ سجدے یا قیام کی حالت میں نہ ہو، یہی بات فرشتوں کے اس قول کی مصداق ہے: ‏‏‏‏ ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے۔ اور ہم تو (‏‏‏‏بندگی الٰہی میں) صف بستہ کھڑے ہیں۔ اور اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں۔ (‏‏‏‏ سورہ صافات: 164، 165، 166) [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3787]
2455. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سب سے بہترین زمانے میں ہوئی
حدیث نمبر: 3788
-" بعثت من خير قرون بني آدم قرنا فقرنا، حتى بعثت من القرن الذي كنت فيه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏مجھے اولاد آدم کے سب سے بہترین زمانے میں مبعوث کیا گیا، زمانہ صدی در صدی گزرتا گیا، حتیٰ کہ وہ صدی آ گئی جس میں مجھے بحثیت رسول بھیجا گیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3788]
2456. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپنے میں شقِّ بطن کا واقعہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام فرزندان امت سے بھاری ہیں
حدیث نمبر: 3789
-" كانت حاضنتي من بني سعد بن بكر، فانطلقت أنا وابن لها في بهم لنا ولم نأخذ معنا زادا، فقلت:" يا أخي اذهب فأتنا بزاد من عند أمنا، فانطلق أخي ومكثت عند البهم، فأقبل طائران أبيضان كأنهما نسران فقال أحدهما لصاحبه: أهو هو؟ قالا الآخر: نعم، فأقبلا يبتدراني فأخذاني فبطحاني للقفا فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه فأخرجا منه علقتين سوداوين، فقال أحدهما لصاحبه: ائتني بماء ثلج، فغسل به جوفي، ثم قال: ائتني بماء برد، فغسل به قلبي، ثم قال: ائتني بالسكينة، فذره في قلبي، ثم قال أحدهما لصحابه: حصه، فحاصه وختم عليه بخاتم النبوة، ثم قال أحدهما لصاحبه: اجعله في كفة، واجعل ألفا من أمته في كفة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإذا أنا أنظر إلى الألف فوقي أشفق أن يخر علي بعضهم، فقال: لو أن أمته وزنت به لمال بهم، ثم انطلقا وتركاني قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وفرقت فرقا شديدا ثم انطلقت إلى أمي فأخبرتها، بالذي لقيت، فأشفقت أن يكون قد التبس بي، فقالت: أعيذك بالله، فرحلت بعيرا لها فجعلتني على الرحل وركبت خلفي حتى بلغنا إلى أمي فقالت: أديت أمانتي وذمتي، وحدثتها بالذي لقيت فلم يرعها ذلك وقالت: إني رأيت خرج مني نورا أضاءت منه قصور الشام".
سیدنا عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ، جو اصحاب رسول میں سے تھے، نے ہمیں بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے نبوی معاملے کی ابتداء کیسے ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری دایہ کا تعلق بنو سعد بن بکر قبیلے سے تھا، میں اور اس کا بیٹا بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے باہر چلےگئے اور اپنے ساتھ زاد راہ نہ لیا۔ میں نے کہا: میرے بھائی! جاؤ اور اپنی ماں سے اشیاء خوردنی لے آؤ۔ پس میرا بھائی چلا گیا اور میں بکریوں کے پاس ٹھہرا رہا۔ (‏‏‏‏میں کیا دیکھتا ہوں کہ) گدھ کی طرح کے دو سفید پرندے متوجہ ہوئے، ایک نے دوسرے سے کہا: کیا یہ آدمی وہی ہے؟ دوسرے نے کہا: جی ہاں۔ پھر وہ لپکتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے پکڑا اور گدّی کے بل لٹا دیا، میرا پیٹ چاک کیا، میرا دل نکالا اور اسے چیرا دیا، اس سے گاڑھے خون کے دو سیاہ ٹکڑے نکالے۔ پھر ایک نے دوسر ے سے کہا: برف والا پانی لاؤ۔ پس اس نے اس پانی سے میرا پبٹ دھویا، پھر کہا: اولوں والا پانی لاؤ۔ اس سے اس نے میرا دل دھویا اور پھر کہا: سکینت لاؤ۔ اس (‏‏‏‏اطمنان و سکون) کو میرے دل میں چھڑک دیا۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا: ٹانکے لگا دو۔ پس اس نے ٹانکے لگا دیے اور اس پر مہر نبوت ثبت کر دی۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا: اس (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (‏‏‏‏ترازو کے) ایک پلڑے میں اور دوسرے میں اس کی امت کے ہزار افراد رکھو۔‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (‏‏‏‏جب انہوں نے وزن کرنے کے لیے ترازو اٹھایا تو) میں نے دیکھا کہ وہ ہزار آدمی (‏‏‏‏میرے مقابلے میں کم وزن ہونے کی وجہ سے) اتنے اوپر اٹھ گئے کہ مجھے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھ پر گر پڑیں۔ پھر اس نے کہا: اگر ان کا وزن ان کی پوری امت سے کیا جائے تو یہ (‏‏‏‏ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) وزنی ثابت ہوں گے، پھر وہ چلےگئے اور مجھے چھوڑ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت میں بہت زیادہ گھبرا گیا اپنی دایہ کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ اسے سنا دیا، اسے یہ اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی عقل میں کوئی فتور نہ آ گیا ہو۔ اس نے کہا: میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ پھر اس نے اونٹ پر کجاوہ رکھا، مجھے کجاوے پر بٹھایا اور خود میرے پیچھے سوار ہو گئی اور مجھے میری ماں (‏‏‏‏آمنہ) کے پاس پہنچا دیا اور میری ماں کو کہا: میں نے اپنی امانت اور ذمہ داری ادا کر دی ہے، پھر اسے وہ سارا واقعہ سنا دیا، جو مجھے پیش آیا تھا۔ لیکن (‏‏‏‏یہ ماجرا) میری ماں کو نہ گھبرا سکا، بلکہ انہوں نے کہا: جب یہ بچہ (‏‏‏‏میرے بطن سے) پیدا ہوا تھا تو میں نے ایک نور دیکھا تھا، جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3789]
حدیث نمبر: 3790
-" يا أبا ذر! أتاني ملكان وأنا ببعض بطحاء مكة، فوقع أحدهما على الأرض وكان الآخر بين السماء والأرض، فقال أحدهما لصحابه: أهو هو؟ قال: نعم، قال: فزنه برجل فوزنت به، فوزنته، ثم قال: فزنه بعشرة، فوزنت بهم، فرجحتهم، ثم قال: زنه بمائة فوزنت بهم، فرجحتهم، ثم قال: زنه بألف فوزنت بهم، فرجحتهم، كأني أنظر إليهم ينتثرون علي من خفة الميزان، قال: فقال أحدهما لصاحبه: لو وزنته بأمة لرجحها".
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب آپ کو تاج نبوت پہنایا گیا تو آپ کو کیسے پتہ چلا کہ آپ نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میرے پاس دو فرشتے آئے اور میں اس وقت مکہ کی کسی وادی میں تھا، ان میں ایک زمین پر تھا اور دوسرا زمین و آسمان کے مابین۔ ایک نے دوسرے کے کہا: (‏‏‏‏جس شخصیت کی طرف ہم کو بھیجا گیا ہے) کیا یہ وہی ہے؟ دوسرے نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: ایک آدمی کے ساتھ ان کا وزن کرو، میرا وزن کیا گیا، لیکن میں بھاری رہا۔ اس نے کہا: دس آدمیوں سے ان کا وزن کرو۔ میرا وزن کیا گیا، لیکن میں ان پر بھی بھاری ثابت ہوا۔ اس نے کہا: سو افراد کے ساتھ وزن کرو۔ میرا وزن کیا گیا، لیکن میرا وزن زیادہ رہا۔ اس نے کہا: ہزار افراد کے ساتھ وزن کرو۔ میرا وزن کیا، لیکن (‏‏‏‏اب کی بار بھی) میں ہی وزنی رہا اور ان (‏‏‏‏ہزار آدمیوں کا پلڑا ہلکا ہونے کی وجہ سے) اتنا اوپر ا‏‏‏‏ٹھ گیا کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہیں وہ خفت میزان کی وجہ سے مجھ پر گر ہی نہ جائیں۔ (‏‏‏‏بالآخر) ایک نے دوسرے سے کہا: اگر انکا وزن ان کی پوری امت سے کر دے تو یہ سب پر بھاری ثابت ہوں گے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3790]
2457. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی کیفیت
حدیث نمبر: 3791
- (أحياناً يأتينِي في مثل صَلصلَةِ الجَرَسِ، وهو أشدُّه عليَّ، ثمّ يَفصِمُ عنِّي وقد وَعَيتُه، وأحياناً ملَكٌ في مثلِ صُورِة الرّجُلِ، فأَعِي ما يقولُ).
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ کے پاس وحی کے آنے کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏کبھی تو وہ گھنٹی کی گونج کی طرح آتی ہے اور یہ کیفیت مجھ پر بڑی گراں گزرتی ہے، جب یہ کیفیت چھٹتی ہے تو میں وہ وحی یاد کر چکا ہوتا ہوں اور بسا اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ میرے پاس فرشتہ انسانی شکل میں آتا، پھر جو کچھ وہ کہتا ہے، میں یاد کر لیتا ہوں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3791]
حدیث نمبر: 3792
-" كان إذا نزل الوحي عليه ثقل لذلك، وتحدر جبينه عرقا كأنه الجمان، وإن كان في البرد".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ مشقت میں پڑ جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے موتیوں کی طرح پسینہ بہتا تھا، اگرچہ سردی کا موسم ہوتا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3792]

1    2    3    4    5    Next