2326. روز قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ملاقات
حدیث نمبر: 3559
-" يتجلى لنا ربنا عز وجل يوم القيامة ضاحكا".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت والے دن ہمارے رب ہنستے ہوئے ہمارے سامنے تجلی فرمائیں گے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3559]
حدیث نمبر: 3559M
-" اطلبني أول ما تطلبني على الصراط. قال: فإن لم ألقك عند الصراط؟ قال: اطلبني عند الميزان. قال: فإن لم ألقك عند الميزان؟ قال: فاطلبني عند الحوض، فإني لا أخطئ هذه الثلاث المواطن".
نضر بن انس بن مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ وہ میرے حق کے روز قیامت سفارش کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے ہی کروں گا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ! میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے سب سے پہلے پل صراط پر تلاش کرنا۔“ میں نے کہا اگر میں وہاں آپ کو نہ مل سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر میزان کے پاس مجھے تلاش کرنا۔“ میں نے کہا اگر میں آپ کو میزان کے پاس نہ پا سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر حوض پر مجھے تلاش کرنا، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ان تینوں مقامات پر نہ ملوں۔“ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3559M]
2327. اللہ تعالی کی سو رحمتیں
حدیث نمبر: 3560
-" إن لله مائة رحمة قسم رحمة (واحدة) بين أهل الدنيا وسعتهم إلى آجالهم وأخر تسعا وتسعين رحمة لأوليائه وإن الله قابض تلك الرحمة التي قسمها بين أهل الدنيا إلى التسع والتسعين، فيكملها مائة رحمة لأوليائه يوم القيامة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں، ایک رحمت کو اہل دنیا میں تقسیم کیا، وہ ان کو تا موت کافی ہے، اور ننانوے رحمتیں اپنے اولیاء کے لیے مؤخر کر رکھی ہیں اور جو رحمت اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا میں تقسیم کی تھی، اس کو بھی واپس کر کے ان ننانوے کے ساتھ ملا دے گا اور اس طرح اپنے دوستوں کے لیے قیامت کے دن سو رحمتیں پوری کر دے گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3560]
2328. تعارف کے لیے اللہ تعالی کا اپنی پنڈلی منکشف کرنا، روز قیامت ہر عابد اپنے معبود کے ساتھ ہو گا
حدیث نمبر: 3561
-" إذا جمع الله العباد بصعيد واحد نادى مناد: يلحق كل قوم بما كانوا يعبدون ويبقى الناس على حالهم، فيأتيهم فيقول: ما بال الناس ذهبوا وأنتم ههنا؟ فيقولون: ننتظر إلهنا، فيقول: هل تعرفونه؟ فيقولون: إذا تعرف إلينا عرفناه فيكشف لهم عن ساقه، فيقعون سجدا وذلك قول الله تعالى: * (يوم يكشف عن ساق ويدعون إلى السجود فلا يستطيعون) * ويبقى كل منافق، فلا يستطيع أن يسجد، ثم يقودهم إلى الجنة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ بندوں کو ایک جگہ پر اکھٹا کرے گا تو منادی کرنے والا آواز دے گا: ہر کوئی اپنے اپنے معبودوں کے ساتھ مل جائے۔ تمام لوگ اپنے اپنے معبودوں کے ساتھ مل جائیں گے۔ کچھ لوگ اپنی سابقہ حالت پر کھڑے رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گا اور پوچھے گا: کیا وجہ ہے، لوگ چلے گئے ہیں اور تم یہیں کھڑے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم اپنے معبود کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کیا تم اپنے معبود کو پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے: اگر وہ ہمیں اپنا تعارف کروا دے تو ہم پہچان لیں گے۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی سے پردہ اٹھائے گا، وہ سجدہ میں گر پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول ”جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائیں جائیں گے تو (سجدہ) نہ کر سکیں گے۔“(سورۂ قلم: ۴۲) کا یہی مصداق ہے۔ منافق کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے اور سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ جنت کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3561]
حدیث نمبر: 3562
-" نحن يوم القيامة على كوم فوق الناس، فتدعى الأمم بأوثانها وما كانت تعبد، الأول فالأول، ثم يأتينا ربنا بعد ذلك فيقول: ما تنتظرون؟ فيقولون: ننتظر ربنا، فيقول: أنا ربكم، فيقولون: حتى ننظر إليك، فيتجلى لهم يضحك، فيتبعونه".
ابوزبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے قیامت کے دن آنے کے بارے میں سوال کیا۔ انہوں نے جواباً مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی: ”ہم روز قیامت عام لوگوں سے بلند ایک ٹیلے پر ہوں گے، امتوں کو ان کے بتوں اور معبودوں سمیت پکارا جائے گا، وہ یکے بعد دیگرے آئیں گی، پھر، ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا اور پوچھے گا: تم لوگ کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہم کہیں گے: ہم اپنے رب کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ ہم کہیں گے: (اپنے سامنے سے پردہ چاک کرو) تاکہ ہم تجھے دیکھ سکیں۔ سو اللہ تعالیٰ ہنستے ہوئے ان کے سامنے ظاہر ہوں گے اور وہ ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3562]
حدیث نمبر: 3563
-" يكشف ربنا عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة ويبقى من كان يسجد في الدنيا رياء وسمعة فيذهب ليسجد فيعود ظهره طبقا واحدا".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ہمارا رب اپنی پنڈلی سے پردہ ہٹائے گا تو ہر مومن مرد عورت اسے سجدہ کریں گے، جو لوگ دنیا میں ریاکاری اور شہرت کیلے سجدہ کرتے تھے وہ باقی رہ جائیں گے، ان میں سے ہر ایک سجدہ کرنے (کے لیے جھکنے) کی کوشش تو کرے گا، لیکن اس کی کمر ایک تختہ ہو جائے گی۔ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3563]
2329. اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی معبود میں خیر نہیں ہے، اگر ایسے ہی ہے تو انبیا و صلحا کا کیا ہو گا، جن کو لوگوں نے معبود بنا لیا؟
حدیث نمبر: 3564
- (يا معشر قريش! إنه ليس أحد يعبد من دون الله فيه خير - وقد علمت قريش أن النصارى تعبد عيسى ابن مريم، وما تقول في محمد-؛ فقالوا: يا محمد! ألست تزعم أن عيسى كان نبياً وعبداً من عباد الله صالحاً؟! فلئن كنت صادقاً فإن آلهتهم لكما يقولون- (الأصل: تقولون!) -، قال: فأنزل الله عز وجل: (ولما ضرب ابن مريم مثلاً إذا قومك منه يصدون) (الزخرف: 57) قال: قلت: ما (يصدون)؟ قال: يضجُّون. (وإنه لعلم للساعة) (الزخرف: 61)، قال: هو خروج (وفي رواية: نزول) عيسى ابن مريم عليه السلام قبل يوم القيامة).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے قرآن مجید کی ایک آیت پر غور و فکر کر کے اسے سمجھا ہے، لیکن اس کے بارے میں کسی نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا۔ اب میں نہیں جانتا کہ آیا لوگ اس آیت کو سمجھ گئے ہیں، کہ اس کے بارے میں سوال نہیں کرتے یا سرے سے وہ (استدلال یا مسئلہ) ان کے ذہن میں ہی نہیں آیا کہ اس کے بارے میں پوچھیں۔ پھر انہوں نے ہمیں احادیث بیان کرنا شروع کر دیں۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو ہم اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے ان سے اس آیت کے بارے میں سوال کیوں نہیں کیا۔ میں نے کہا: جب وہ کل آئیں گے تو میں پوچھوں گا۔ جب وہ اگلے دن آئے تو میں نے کہا: ابن عبّاس! آپ نے کل ایک آیت کے بارے میں کہا تھا کے اس کی بابت کسی نے آپ سے سوال نہیں کیا اور اب آپ نہیں جانتے کہ آیا لوگ سمجھ چکے ہیں اس لیے سوال نہیں کر رہے یا سرے سے وہ نقطہ ان کی سمجھ میں نہیں آ سکا؟ پھر میں نے کہا: اب آپ مجھے وہ آیت اور اس سے پہلے والی آیات بتلا دیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو فرمایا: ”اے قریشیوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جاتی ہے، اس میں کوئی خیر نہیں۔ قریشیوں کو علم تھا کہ عیسائی لوگ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی عبادت کرتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جرح کرتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نبی تھے اور بندگان خدا میں سے ایک صالح بندے تھے؟ اگر آپ کی بات سچی ہے (کہ اللہ کے علاوہ کسی معبود میں کوئی خیر نہیں) تو (سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سمیت) ان کے معبودوں میں کوئی خیر نہیں ہو گی؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی ”اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم خوشی سے چیخنے لگی ہے۔“(سورۂ زخرف: ۵۷) میں نے کہا «يصدون» کا معنی کیا ہے؟ انہوں نے کہا: شور و غل مچانا، ”اور یقیناً وہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) قیامت کی علامت ہے۔“( زخرف: ۶۱) اس سے مراد روز قیامت سے پہلے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ اسلام کا نزول ہے۔“ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3564]
2330. علامات قیامت
حدیث نمبر: 3565
-" إذا رأيت الأمة ولدت ربتها أو ربها ورأيت أصحاب الشاء يتصاولون بالبنيان ورأيت الحفاة الجياع العالة كانوا رءوس الناس، فذلك من معالم الساعة وأشراطها".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، جبریل علیہ السلام آ کر آپ کے سامنے یوں بیٹھے کہ اپنی ہتھیلیاں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دیں اور کہا: اے اللہ رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیں۔۔۔۔ (روای نے طویل حدیث ذکر کی، اس میں یہ الفاظ بھی تھے:) انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! پانچ امور کا تعلق علم غیب سے ہے، صرف اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے، (وہ پانچ چیزیں اس آیت میں مذکور ہیں:) «إِنَّ اللَّـهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ»”بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔“(۳۱-لقمان:۴۵) ہاں اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں قیامت سے پہلے والی علامت کے بارے میں آگاہ کر دیتا ہوں۔“ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! مجھے بیان کیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دیکھو گے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، بکریوں کے چرواہے (عالیشان) عمارتوں میں غرور تکبر کریں گے۔ ننگے پاؤں، بھوکے اور فقیر افراد لوگوں کے سردار بن جائیں گے۔ یہ قیامت کی علامتیں اور شرطیں ہیں۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول بکریوں کے چرواہوں، ننگے پاؤں، بھوکوں اور فقیروں سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرب لوگ۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3565]
حدیث نمبر: 3566
-" إن بين يدي الساعة تسليم الخاصة وفشو التجارة، حتى تعين المرأة زوجها على التجارة وقطع الأرحام وشهادة الزور وكتمان شهادة الحق وظهور القلم".
طارق بن شہاب کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی آیا اور کہا: اقامت کہی جا چکی ہے، وہ کھڑے ہوئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے، جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ مسجد کے اگلے حصے میں رکوع کی حالت میں ہیں۔ انہوں نے ”اللہ أکبر“ کہا اور (صف تک پہنچنے سے پہلے ہی) رکوع کیا، ہم نے بھی رکوع کیا، پھر ہم رکوع کی حالت میں چلے (اور صف میں کھڑے ہو گئے) اور جیسے انہوں نے کیا ہم کرتے رہے۔ ایک آدمی جلدی میں گزرا اور کہا: ابو عبدالرحمٰن! السلام علیکم۔ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا۔ جب ہم نے نماز پڑھ لی اور واپس آ گئے، وہ اپنے اہل کے پاس چلے گئے۔ ہم بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کو کہنے لگے: آیا تم لوگوں نے سنا ہے کہ انہوں نے اس آدمی کو جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ نے سچ کہا اور اس کے رسولوں نے (اس کا پیغام) پہنچا دیا؟ تم میں سے کون ہے جو ان سے ان کے کئے کے بارے میں سوال کرے؟ طارق نے کہا میں سوال کروں گا۔ جب وہ باہر آئے تو انہوں نے سوال کیا۔ جواباً انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے مخصوص لوگوں کو سلام کہا جائے گا اور تجارت عام ہو جائے گی، حتیٰ کہ بیوی تجارتی امور میں اپنے خاوند کی مدد کرے گی، نیز قطع رحمی، جھوٹی گواہی، سچی شہادت کو چھپانا اور لکھائی پڑھائی (بھی عام ہو جائے گی)۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3566]
حدیث نمبر: 3567
-" والذي نفسي بيده لا تقوم الساعة حتى يكلم السباع الإنس ويكلم الرجل عذبة سوطه وشراك نعله ويخبره فخذه بما حدث أهله بعده".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک بھیڑئیے نے بکری پر حملہ اور اس کو پکڑ لیا۔ چرواہا نے اس کا تعاقب کیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کر کے اپنی دم پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: کیا تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا؟ اللہ نے مجھے جو رزق عطا کیا تھا، تو نے وہ چھین لیا ہے؟ چرواہا کہنے لگا: ہائے تعجب! بھیڑیا ہے، اپنی دم پر بیٹھا ہے اور انسانوں کی طرح گفتگو کر رہا ہے۔ اتنے میں بھیڑیا پھر بولا اور کہنے لگا: کیا میں تجھے اس سے تعجب انگیز بات نہ بتلاؤں؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب (مدینہ) میں آ چکے ہیں اور ماضی کی خبریں بتاتے ہیں۔ (یہ سن کر) چرواہا اپنی بکریوں کو ہانکتے ہانکتے مدینہ میں داخل ہوا، بکریوں کو کسی گوشے میں جمع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور لوگوں کو جمع کرنے کے لیے «الصلاة جامعة» کی صدا بلند کی گئی، (لوگ جمع ہو گئے اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور چرواہے کو سارا واقعہ بیان کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ”اس نے سچ کہا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت کے برپا ہونے سے پہلے درندے لوگوں سے باتیں کریں گے، آدمی اپنی لاٹھی کی نوک اور جوتے کے تسمے سے ہم کلام ہو گا اور اس کی ران اسے بتلائے گی کی اس کی بیوی نے اس کے بعد کیا کچھ کیا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3567]