2316. سیدنا علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے، مشاجرات صحابہ کے بارے میں متاخرین کو کیا کہنا چاہیے؟
حدیث نمبر: 3539
-" ما خير عمار بين أمرين إلا اختار أرشدهما".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی عمار کو دو امور میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے انتہائی ہدایت والے معاملے کو اختیار کیا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3539]
حدیث نمبر: 3540
- (أبو اليقظان على الفطرة، لا يدَعُها حتى يموت، أو يمسَّهُ الهرم).
بلال بن یحییٰ کہتے ہیں جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا، تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اے ابوعبداللہ! عثمان (رضی اللہ عنہ) کو تو شہید کر دیا گیا ہے اور لوگ اختلاف میں پڑ چکے ہیں، ایسے میں آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے کہا: مجھے سہارا دو۔ انہوں نے ان کو ایک آدمی کے سینے کا سہارا دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”ابوالیقظان فطرت (اسلام) پر ہے اور اس کو مرنے تک یا انتہائی بوڑھا ہونے تک نہیں چھوڑے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3540]
حدیث نمبر: 3541
-" أبشر عمار، تقتلك الفئة الباغية".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمار! خوش ہو جا، تجھے باغی گروپ قتل کرے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3541]
حدیث نمبر: 3542
-" لتقاتلنه وأنت ظالم له. يعني الزبير وعليا رضي الله عنهما".
ابوحرب بن ابو اسود کہتے ہیں: میں سیدنا علی اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر صفوں کو چیرتے ہوئے واپس جا رہے تھے، ان کا بیٹا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آیا اور پوچھا: آپ کو کیا ہو گیا؟ انہوں نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسی حدیث بیان کی جو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس سے ضرور لڑے گا اور تو اس کے حق میں ظالم ہو گا۔“ سو میں اس سے قتال نہیں کرتا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لڑنے کے لیے تھوڑے آئے ہیں؟ آپ تو لوگوں کے مابین صلح کروانے کے لیے آئے ہیں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے اس معاملے کا تصفیہ کر دے۔ انہوں نے کہا: میں نے تو قتال نہ کرنے کی قسم اٹھا لی ہے۔ سیدنا عبداللہ نے کہا: ( تو بطور کفارہ) جرجس نامی غلام کو آزاد کر دو اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے تک یہیں ٹھہرے رہو۔ سو انہوں نے اپنے غلام جرجس کو آزاد کر دیا اور وہیں ٹھہر گئے، لیکن جب لوگوں کا معاملہ مختلف فیہ ہو گیا ( اور صلح نہ ہو سکی) تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3542]
حدیث نمبر: 3543
-" أسلم الناس وآمن عمرو بن العاص".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں عمرو بن العاص زیادہ سلامتی والا اور امن والا ہے۔“ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3543]
2317. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جنگ جمل میں شرکت کرنا کیسا تھا؟
حدیث نمبر: 3544
-" أيتكن تنبح عليها كلاب الحوأب".
قیس بن ابوحازم بیان کرتے ہیں کہ جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حوأب مقام پر آئیں تو کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں اور کہا: میں تو سمجھتی ہوں کہ مجھے واپس لوٹ جانا چاہیئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا تھا: ”تم میں سے وہ کون ہے جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے۔“ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لوٹتی ہیں! ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی وجہ سے لوگوں میں صلح کروا دے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3544]
2318. سیدنا عثمان برحق خلیفہ رسول تھے
حدیث نمبر: 3545
- (إنَّكم تَلقَونَ بَعدي فِتنةً واختلافاً- أو قال: اختلافاً وفتنةً-، فقال له قائلٌ من الناس: فمن لنا يا رسولَ اللهِ؟! قال: عليكم بالأمينِ وأصحابهِ، وهو يشيرُ إلى عثمان بذلك).
موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں: مجھے میرے نانا ابوحبیبہ نے بیان کیا کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر، جس میں وہ محصور تھے، داخل ہوئے، انہوں نے دیکھا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کچھ باتیں کرنے کے لیے اجازت طلب کی۔ انہوں نے اجازت دے دی، وہ کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”تم لوگ میرے بعد فتنے اور اختلاف میں پڑ جاؤ گے۔“ کسی کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس وقت (کون سا قائد) ہمارے حق میں بہتر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اس امین اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑنا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3545]
حدیث نمبر: 3546
- (تَهجُمون على رجلٍ مُعتَجرٍ ببردٍ حَبِرَةٍ، يبايعُ الناسَ، من أهل الجنة)
سیدنا عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ”اچانک تم ایسے آدمی پر (بیعت کرنے کے لیے) ٹوٹ پڑو گے، جس نے دھاری دار چادر لپیٹی ہو گی، وہ لوگوں سے بیعت لے گا، اس حال میں کہ وہ جنتی ہو گا۔“(ایک دن آیا کہ) ہم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے لیے ان پر ہجوم کیا اور انہوں نے دھاری دار چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3546]
حدیث نمبر: 3547
- (لَتَخْرُجَنَّ فتنةٌ من تحتِ قدمَيْ ـ أو بين رجلَيْ - هذا، (يعني: عثمان رضي الله عنه)، هذا يومئذٍ ومن اتبعهُ على الهُدى).
جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیمہ زن تھے، سیدنا کعب بن مرہ بہزی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ سنی ہوتی تو میں اس مقام پر کھڑ ا نہ ہوتا۔ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنا تو لوگوں کو بٹھا دیا، انہوں نے کہا: ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اپنے بالوں کو سنوارا اور چہرے پر کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (عثمان) کے قدموں کے نیچے سے فتنہ نکلے گا، اس وقت یہ (عثمان) اور اس کے پیروکار ہدایت پر ہوں گے۔ منبر کے پاس سے ابن حوالہ ازدی کھڑا ہوا اور مجھے کہا: (کعب!) تو بھی اسی کا ساتھی ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ اللہ کی قسم! میں اس مجلس میں حاضر تھا، اگر مجھے یہ یقین ہو جائے کہ اس لشکر میں میری تصدیق کرنے والے موجود ہیں تو اس کے بارے میں سب سے پہلے میں کلام کروں گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3547]
2319. بارہ خلفائے قریش
حدیث نمبر: 3548
-" يكون من بعدي اثنا عشر أميرا كلهم من قريش".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد بارہ امراء ہوں گے، وہ سارے کے سارے قریش سے ہوں گے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الفتن و اشراط الساعة والبعث/حدیث: 3548]