2134. نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے فضائل و مناقب، آپ صلى اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دیں گے
حدیث نمبر: 3169
-" أنا أول من يأخذ بحلقة باب الجنة فأقعقعها".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں وہ پہلا شخص ہوں جو جنت کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹاوں گا۔“ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3169]
حدیث نمبر: 3170
-" آتي باب الجنة يوم القيامة، فأستفتح، فيقول الخازن: من أنت؟ فأقول: محمد، فيقول: بك أمرت أن لا أفتح لأحد قبلك".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں روز قیامت جنت کے دروازے پر آ کر اسے کھولنے کا مطالبہ کروں گا۔ دربان پوچھے گا: آپ کون ہیں؟ میں جواب دوں گا: میں محمد ہوں۔ (یہ سن کر) وہ کہے گا: آپ کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے (جنت کا) دروازہ نہیں کھولنا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3170]
حدیث نمبر: 3171
-" امشوا أمامي، وخلوا ظهري للملائكة".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اپنے صحابہ سے فرمایا: ”تم لوگ میرے سامنے چلو اور میری پشت (والی سمت) فرشتوں کے لیے خالی کر دو۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3171]
حدیث نمبر: 3172
-" رأت أمي كأنه خرج منها نور أضاءت منه قصور الشام".
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری ماں نے دیکھا کہ ایک نور ان سے خارج ہوا، جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3172]
حدیث نمبر: 3173
-" سألت ربي مسألة وودت أني لم أسأله، قلت: يا رب! كانت قبلي رسل منهم من سخرت له الرياح ومنهم من كان يحيي الموتى، [وكلمت موسى]. قال: ألم أجدك يتيما فآويتك؟ ألم أجدك ضالا فهديتك؟ ألم أجدك عائلا فأغنيتك؟ ألم أشرح لك صدرك ووضعت عنك وزرك؟ قال: فقلت بلى يا رب! [فوددت أن لم أسأله]".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا، لیکن بعد میں چاہا کہ نہ کیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ میں نے کہا: اے میرے رب! مجھ سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں، تو نے کسی کے لیے ہواؤں کو مسخر کیا، کوئی ( تیری توفیق سے) مردوں کو زندہ کرتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام سے تو نے ( براہ راست) کلام کی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: کیا میں نے تجھے یتیم پا کر مقام نہیں دیا، کیا تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی، کیا تجھے نادار پا کر تونگر نہیں بنا دیا، کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا اور تجھ پر سے تیرا بوجھ نہیں اتار دیا؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، (اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے چپ کرا دیا)۔ میں نے چاہا کہ میں نے سوال نہ کیا ہوتا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3173]
حدیث نمبر: 3174
-" أنا دعوة أبي إبراهيم، وبشرى عيسى عليهما السلام، ورأت أمي حين حملت بي أنه خرج منها نور أضاءت له قصور الشام، واسترضعت في بني سعد بن بكر، فبينا أنا في بهم لنا أتاني رجلان عليهما ثياب بيض، معهما طست من ذهب مملوء ثلجا، فأضجعاني، فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه فأخرجا منه علقة سوداء فألقياها، ثم غسلا قلبي وبطني بذلك الثلج، حتى إذا أنقياه رداه كما كان، ثم قال أحدهما لصاحبه: زنه بعشرة من أمته. فوزنني بعشرة، فوزنتهم، ثم قال: زنه بمائة من أمته. فوزنني بمائة فوزنتهم، ثم قال: زنه بألف من أمته، فوزنني بألف فوزنتهم، فقال: دعه عنك فلو وزنته بأمته لوزنهم".
خالد بن معدان، اصحاب رسول سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں بتلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں، جب میری ماں کو میرا حمل ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نور ان سے نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے، مجھے بنو سعد بن بکر قبیلے میں دودھ پلایا گیا۔ میں وہاں بکریاں چرا رہا تھا، میرے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے، ان کے پاس برف سے بھری ہوئی سونے کی پلیٹ تھی، انھوں نے مجھے لٹا دیا، میرے پیٹ کو چاک کیا، پھر دل کو نکالا، اس کو پھاڑا اور اس سے سیاہ رنگ کا بستہ خون کا ٹکڑا نکال کر پھینک دیا، پھر میرے دل اور پیٹ کو برف سے دھویا، جب انھیں صاف کر لیا تو اپنی اپنی جگہ پر لوٹا دیا۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ان کی امت کے دس افراد سے ان کا وزن کرو۔ چنانچہ انہوں نے دس افراد سے میرا وزن کیا، میں بھاری رہا۔ پھر اس نے کہا: ان کی امت کے سو افراد سے ان کا وزن کرو۔ سو اس نے سو (۱۰۰) افراد سے میرا وزن کیا، میں وزنی رہا۔ پھر اس نے کہا: ہزار آدمیوں سے ان کا وزن کرو، چنانچہ اس نے ہزار افراد سے میرا وزن کیا نتیجتاً میں بھاری رہا (بلآخر) اس نے کہا: چھوڑیئے، اگر تم ان کی پوری امت سے ان کا وزن کرو تو پھر بھی یہ وزن میں غالب رہیں گے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3174]
حدیث نمبر: 3175
- (وُزِنْتُ بألفٍ من أمَّتي فرجَحْتُهم، فجعلُوا يتناثرون عليَّ من كِفَّةِ الميزان).
سیدناابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ایک ہزار افراد سے میرا وزن کیا گیا، میں وزنی رہا (اور ان کا پلڑا اتنا اوپر کو اٹھ گیا کہ) وہ اس سے مجھ پر گرنا شروع ہو گئے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3175]
حدیث نمبر: 3176
-" أنا دعوة أبي إبراهيم، وكان آخر من بشر بي عيسى ابن مريم عليه الصلاة والسلام".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں آگاہ کیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور سب سے آخر میں میری بشارت دینے والے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تھے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3176]
2135. آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب جوامع الکلم تھے
حدیث نمبر: 3177
-" أعطيت فواتح الكلم وخواتمه، قلنا: يا رسول الله علمنا مما علمك الله عز وجل، فعلمنا التشهد".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جامع اور خاتم کلمے عطا کیے گئے ہیں۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو تعلیمات دی ہیں ان میں سے ہمیں بھی کچھ سکھا دیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تشہد سکھایا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3177]
2136. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا باعث رحمت و تزکیہ ٹھہرنا
حدیث نمبر: 3178
-" يا أم سليم! أما تعلمين أن شرطي على ربي؟ أني اشترطت على ربي فقلت: إنما أنا بشر أرضى كما يرضى البشر وأغضب كما يغضب البشر فأيما أحد دعوت عليه من أمتي بدعوة ليس لها بأهل أن يجعلها له طهورا وزكاة وقربة يقربه بها منه يوم القيامة".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا، جو انس کی ماں تھیں، کے پاس ایک یتیم بچی تھی۔ ( ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچی کو دیکھا اور پوچھا: ” تو یہاں ہے؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے، تیری عمر نہ بڑھنے پائے۔“ یہ سن کر یتیمہ روتی ہوئی ام سلیم کے پاس پہنچی۔ ام سلیم نے پوچھا: بیٹی! کیا ہوا؟ بچی نے جواب دیا: اللہ کے نبی نے مجھے بددعا دی ہے کہ میری عمر یا میرا زمانہ طویل نہ ہونے پائے۔ ام سلیم نے جلدی جلدی چادر لپیٹی اور نکل پڑی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ام سلیم! تجھے کیا ہوا؟“ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے میری یتیمہ کو بددعا دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کون سی ( ذرا وضاحت کرو)؟“ اس نے کہا: میری یتیمہ کہتی ہے کہ آپ نے اسے عمر بڑی نہ ہونے یا اس کا زمانہ طویل نہ ہونے کی بددعا دی ہے۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ”ام سلیم! کیا تجھے علم نہیں ہے کہ میں نے اپنے رب سے شرط لگائی کہ میں بشر ہوں، عام دوسرے انسانوں کی طرح خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ سو میں جس امتی پر ایسی بددعا کر دوں جس کا وہ حقدار نہ ہو تو وہ (اللہ میرے امتی) کے حق میں اس بددعا کو پاک کرنے والی، اس کا تزکیہ کرنے والی اور اسے روز قیامت اپنے قریب کر دینے والی بنا دے؟۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3178]