الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي
فضائل قرآن، دعا ئیں، اذکار، دم
2021. شیطانوں سے محفوظ رہنے کا ذکر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شیطانوں کا حملہ لیکن . . .
حدیث نمبر: 2977
-" جاءت الشياطين إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من الأودية، وتحدرت عليه من الجبال، وفيهم شيطان معه شعلة من نار يريد أن يحرق بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فرعب، قال جعفر: أحسبه قال: جعل يتأخر. قال: وجاء جبريل عليه السلام فقال: يا محمد قل. قال: ما أقول؟ قال: قل:" أعوذ بكلمات الله التامات التي لا يجاوزهن بر ولا فاجر، من شر ما خلق وذرأ وبرأ، ومن شر ما ينزل من السماء، ومن شر ما يعرج فيها، ومن شر ما ذرأ في الأرض، ومن شر ما يخرج منها، ومن شر فتن الليل والنهار، ومن شر كل طارق إلا طارقا يطرق بخير يا رحمن!" فطفئت نار الشياطين، وهزمهم الله عز وجل".
ابوالتیاح سے روایت ہے، ایک آدمی نے سیدنا عبدالرحمٰن بن حنبش رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: جب شیاطین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا: شیاطین پہاڑوں سے نیچے اتر کر وادیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، ان میں ایک شیطان کے ہاتھ میں آگ کا شعلہ تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے ذریعے تکلیف دینا چاہتا تھا۔ لیکن وہ مرعوب ہو گیا اور (‏‏‏‏خودبخود) پیچھے ہٹنے لگ گیا۔ جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاس آئے اور کہا: اے محمد! کہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: میں کیا کہوں؟ انہوں نے کہا: کہو: میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ (‏‏‏‏جن میں کوئی نقص نہیں اور) جن سے نیک تجاوز کر سکتا ہے نہ بد، کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی شر سے جسے اس نے پیدا کیا اور اس چیز کی شر سے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اور اس چیز کی شر سے جو آسمان میں چڑھتی ہے اور اس چیز کی شر سے جسے اس زمین میں پیدا کیا اور اس چیز کے شر سے جو زمین سے نکلتی ہے اور رات اور دن کے فتنوں کے شر سے اور رات کو آنے والے کی شر سے الا یہ کہ وہ خیر کے ساتھ آئے، اے رحمن! (‏‏‏‏یہ دعا پڑھنے سے) شیطانوں کی آگ بجھ گئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دے دی۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2977]
2022. پہلوں کے مقام کو پا لینے اور بعد والوں سے سبقت لے جانے کا سبب بننے والا ذکر
حدیث نمبر: 2978
-" أتاني جبريل، فقال: يا محمد! قل، قلت: وما أقول؟ قال: قل: أعوذ بكلمات الله التامات التي لا يجاوزهن بر ولا فاجر من شر ما خلق وذرأ وبرأ ومن شر ما ينزل من السماء ومن شر ما يعرج فيها ومن شر ما ذرأ في الأرض وبرأ ومن شر ما يخرج منها ومن شر فتن الليل والنهار ومن شر كل طارق إلا طارقا يطرق بخير، يا رحمن!".
ابوتیاح کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن حنبش تمیمی، جو کہ عمر رسیدہ تھے، سے پوچھا: کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کو کیا کیا تھا جس رات شیاطین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے تھے؟ انہوں کے کہا: اس رات کو شیاطین مختلف وادیوں اور گھاٹیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے، ان میں ایک ایسا شیطان بھی تھا جس کے ہاتھ میں آگ کا شعلہ تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو جلانا چاہتا تھا۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام آ گئے اور کہا: اے محمد! کہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کیا کہوں؟ اس نے کہا: یہ دعا پڑھو: میں اللہ کے مکمل کلمات، جن سے کوئی نیک تجاوز کر سکتا ہے نہ بد، کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا اور اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترتی ہے اور اس چیز کے شر سے جو آسمان میں چڑھ جاتی ہے اور رات کو آنے والے کے شر سے، الا یہ کہ وہ خیر کے ساتھ آئے، اے رحمن! (نتیجہ یہ نکلا کہ) ان کی آگ بجھ گئی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں شکست دے دی۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2978]
حدیث نمبر: 2979
- (ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم، ولم يدرككم أحد بعدكم، وكنتم خير من أنتم بين ظهرانَيه- إلا من عمل مثله-؟! تسبِّحون وتحْمَدون وتكبِّرون خلف كل صلاة ثلاثة وثلاثين).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جس کے ذریعے تم اپنے سے پہلوں (‏‏‏‏کے مقام) کو پا لو گے، بعد والے تمہارے (‏‏‏‏مرتبے کو) نہ پہنچ سکیں گے اور تم اپنے دور کے تمام لوگوں میں بہترین قرار پاؤ گے، مگر وہی شخص جو اسی طرح کا عمل کرے گا۔ (‏‏‏‏ ‏‏‏‏عمل یہ ہے) تم لوگ ہر نماز کے بعد «سبحان اللہ» ‏‏‏‏، «الحمد للہ» اور «‏‏‏‏اللہ اکبر» تینتیس تینتیس دفعہ کہا کرو۔ یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابوذر، سیدنا ابو دردا، سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث، جسے ابوصالح نے روایت کیا ہے، یہ ہے: فقراء لوگ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ بلند درجے اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تو مالدار لوگ لے گئے، وہ نماز تو ہماری طرح ہی پڑھتے ہیں اور روزہ بھی ہماری طرح کا رکھتے ہییں۔ لیکن ان کی لیے مالوں سے حاصل ہونے والی فضیلت زیادہ ہے، حج کرتے ہے، عمرہ کرتے ہیں، جہاد کرتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں۔ راوی کہتا ہے: (‏‏‏‏ اوپر والی حدیث ذکر کی) (‏‏‏‏تسبیحات کی تعداد کے بارے میں) ہم اختلاف میں پڑ گئے، کوئی کہتا کہ تینتیس دفعہ «سبحان اللہ» ‏‏‏‏، تینتیس دفعہ «الحمد للہ» اور چونتیس دفعہ «اللہ اکبر» کہنا ہے (‏‏‏‏اور کوئی کچھ اور کہتا)۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور (‏‏‏‏ سارا مسئلہ ذکر کیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «سبحان اللہ» ‏‏‏‏، «الحمد للہ» اور «اللہ اکبر» میں سے ہر ایک تینتیس تینتیس بار کہنا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2979]
2023. زندگی کے آخری ایام کا ذکر
حدیث نمبر: 2980
- (كَانَ في آخِرِ أمْرِهِِ يُكْثِرُ مِنْ قَوْلِ: سبحانَ اللهِ وبحمده، أَستغفرُ اللهَ وأتوبُ إليهِ، [قالت عائشة:] فقلت: يا رسولَ الله! ما لي أَراكَ تكثرُ منْ قولِ: سبحانَ اللهِ وبحمدِه أسْتَغْفرُ اللهَ وأتوبُ إليه؟! قال: إنَّ ربِّي أخْبَرَني أنِّي سأرى علامة في أمَّتي، وأمرني- إذا رأيتُ تلك العلامة- أنْ أسبِّحَ بحمدِهِ وأَستغفرَه، فَقَدْ رأيتُها: (إذا جاءَ نصرُ اللهِ والفَتْحُ. ورأيتَ الناسَ يد خلونَ في دينِ اللهِ أفواجاً. [فسبِّحْ بحَمْدِ ربِّك واستغفرْهُ إنه كان تواباً])).
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخر میں یہ دعا بکثرت پڑھتے تھے: اللہ پاک ہے اپنی تعریفوں کے ساتھ، میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ میں نے کہا: کیا وجہ ہے کہ آپ یہ دعا کثرت کے ساتھ پڑھتے ہیں: اللہ پاک ہے اپنی تعریفوں کے ساتھ، میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے خبر دی تھی کہ میں عنقریب اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا اور یہ حکم بھی دیا کہ جب وہ علامت نظر آ جائے تو کثرت سے تعریفوں سمیت میری تسبیح بیان کرنا اور مجھ سے بخشش طلب کرنا۔ پس تحقیق میں وہ علامت دیکھ چکا ہوں (‏‏‏‏ اور وہ سورۃ نصر ہے) ‏‏‏‏ جب اللہ کی نصرت اور فتح آ پہنچے گی اور آپ دیکھ لیں گے کہ لوگ فوج در فوج دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی تعریفوں سمیت اس کی تسبیح بیان کرنا اور اس سے بخشش طلب کرنا، بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2980]
2024. اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والے کا تذکرہ کرتا ہے
حدیث نمبر: 2981
-" قال الله تبارك وتعالى: يا ابن آدم! إذا ذكرتني خاليا ذكرتك خاليا، وإذا ذكرتني في ملإ ذكرتك في ملإ خير من الذين تذكرني فيهم".
سیدنا عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم! جب تو مجھے خلوت میں یاد کرے گا تو میں بھی تجھے خلوت میں یاد کروں گا اور جب تو کسی گروہ میں میرا تذکرہ کرے گا تو میں بھی تیرا تذکرہ ایسی جماعت میں کروں گا، جو اس گروہ سے بہت زیادہ ہو گی جس میں تو میرا تذکرہ کرے گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2981]
2025. اللہ کے ذکر والے حلقے جنت کے باغیچے ہیں
حدیث نمبر: 2982
-" إذا مررتم برياض الجنة فارتعوا. قال: وما رياض الجنة؟ قال: حلق الذكر".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم لوگ جنت کے باغیچوں کے پاس سے گزرو تو استفادہ کر لیا کرو۔ کسی نے پوچھا: جنت کے باغیچوں سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجالس ذکر۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2982]
2026. مجالس ذکر کی غنیمت جنت ہے
حدیث نمبر: 2983
- (غنيمة مجالس الذكر؛ الجنّة).
سیدنا عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجالس ذکر کی غنیمت کیا ہے؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجالس ذکر کی غنیمت جنت ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2983]
2027. «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ» کی فضیلت
حدیث نمبر: 2984
-" أمرني خليلي صلى الله عليه وسلم بسبع: أمرني بحب المساكين والدنو منهم، وأمرني أن أنظر إلى من هو دوني ولا أنظر إلى من هو فوقي، وأمرني أن أصل الرحم وإن أدبرت، وأمرني أن لا أسأل أحدا شيئا، وأمرني أن أقول بالحق وإن كان مرا، وأمرني أن لا أخاف في الله لومة لائم، وأمرني أن أكثر من قول:" لا حول ولا قوة إلا بالله"، فإنهن من كنز تحت العرش، (وفي رواية: فإنها كنز من كنوز الجنة)".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سات امور کا حکم دیا: (‏‏‏‏۱) مساکین سے محبت کرنے اور ان سے قریب رہنے کا حکم دیا (۲) اپنے سے کم تر شخص کو دیکھنے اور اپنے سے برتر شخص کی طرف توجہ نہ کرنے کا حکم دیا (‏‏‏‏۳) مجھے صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا اگرچہ وہ رخ پھیرنے لگے (‏‏‏‏۴) مجھے حکم دیا کہ میں کسی سے کوئی سوال نہ کروں (‏‏‏‏۵) مجھے حکم دیا کہ میں حق بات کہوں اگرچہ وہ کڑوی ہو (‏‏‏‏٦) مجھے حکم دیا کہ میں اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں اور (‏‏‏‏٧) مجھے حکم دیا میں کثرت سے «لاحول ولا قوة الا بالله» پڑھوں۔ کیونکہ یہ کلمات عرش کے نیچے والے خزانوں میں سے ہیں۔ اور ایک روایت ہے: یہ کلمات جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2984]
حدیث نمبر: 2985
-" ألا أدلك على باب من أبواب الجنة؟ لا حول ولا قوة إلا بالله".
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرا باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھوڑ آیا۔ (‏‏‏‏ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور میں نماز پڑھ چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا پاؤں مارا اور فرمایا: کیا میں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کی طرف تیری رہنمائی کروں؟ (‏‏‏‏اور وہ ہے یہ ذکر) «لاحول ولا قوة الا بالله» (‏‏‏‏برائی سے بچنے کی قوت اور نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2985]
حدیث نمبر: 2986
-" أكثروا من قول لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنها كنز من كنوز الجنة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاحول ولا قوة الا بالله» ‏‏‏‏ برائی سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے، کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/فضائل القرآن والادعية والاذكار والرقي/حدیث: 2986]

Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    14    Next