-" غزونا من المدينة نريد القسطنطينية (وعلى أهل مصر عقبة بن عامر) وعلى الجماعة عبد الرحمن بن خالد بن الوليد والروم ملصقوا ظهورهم بحائط المدينة فحمل رجل (منا) على العدو، فقال الناس: مه مه! لا إله إلا الله! يلقي بيديه إلى التهلكة! فقال أبو أيوب الأنصاري: (إنما تأولون هذه الآية هكذا أن حمل رجل يقاتل يلتمس الشهادة أو يبلي من نفسه!) إنما نزلت هذه الآية فينا معشر الأنصار لما نصر الله نبيه وأظهر الإسلام قلنا (بيننا خفيا من رسول الله صلى الله عليه وسلم): هلم نقيم في أموالنا ونصلحها، فأنزل الله تعالى (وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة) فالإلقاء بالأيدي إلى التهلكة: أن نقيم في أموالنا ونصلحها وندع الجهاد. قال أبو عمران: فلم يزل أبو أيوب يجاهد في سبيل الله حتى دفن بالقسطنطينية".
اسلم ابوعمران نے کہا: ہم جہاد کی نیت سے مدینہ سے نکلے، قسطنطنیہ کا ارادہ تھا، اس وقت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر، عبداالرحمن بن خالد بن ولید لشکر کے امیر تھے، رومی شہر پناہ کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے، ہمارے ایک آدمی نے دشمن پر حملہ کردیا، لوگوں نے کہا: رک جا، رک جا، لا اله الا الله (بڑا تعجب ہے) یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے، سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک آدمی شہادت کی آرزو لے کر جہاد کرتا ہے یا وہ (اللہ کی راہ میں) پوری بہادری کا مظاہرہ کرتا ہے اور تم لوگ اسے اس آیت کا مصداق بنا کر روکتے ہو۔ یہ آیت ہم انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی اور وہ اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اسلام کو ظہور بخشا، تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ایک نجی مجلس میں کہا: آؤ اب اپنے مال مویشی میں رہ کر ان کی اصلاح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ”اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کوہلاکت میں نہ ڈالو“(سورۃ بقرہ: 195) ہاتھوں کو ہلاکت میں ڈالنا یہ ہے کہ ہم مال مویشیوں میں رہ کر ان کی اصلاح کرنے میں مگن ہو جائیں اور جہاد تر ک کر دیں۔ ابوعمران کہتے ہیں: اس کے بعد ابوایوب انصاری اللہ کے راستے میں جہاد کرتے رہے، حتٰی کہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2065]
1358. جہاد میں حصہ نہ لینے والے کا وبال
حدیث نمبر: 2066
-" من لم يغز أو يجهز غازيا أو يخلف غازيا في أهله بخير أصابه الله سبحانه بقارعة قبل يوم القيامة".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جہاد نہیں کیا، یا کسی غازی کو جہاد کا سامان دے کر تیار نہیں کیا یا کسی غازی کے پیچھے اس کے گھر والوں کی بہتر دیکھ بھال نہیں کی، تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت سے پہلے کسی بڑی (اور اچانک) مصیبت اور حادثے سے دوچار کرے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2066]
1359. افضل جہاد کی صورتیں
حدیث نمبر: 2067
-" أفضل الجهاد عند الله يوم القيامة الذين يلقون في الصف الأول فلا يلفتون وجوههم حتى يقتلوا، أولئك يتلبطون في الغرف العلى من الجنة ينظر إليهم ربك، إن ربك إذا ضحك إلى قوم فلا حساب عليهم".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ہاں افضل جہاد ان لوگوں کا ہے، جو پہلی صف میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں اور پیچھے کو متوجہ نہیں ہوتے حتی کہ وہ شہید ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے اعلیٰ بالا خانوں میں داخل ہوں گے۔ ان کی طرف تیرا رب دیکھتا ہے اور تیرا رب جب کسی قوم پر ہنس دے تو ان پر کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔“[سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2067]
حدیث نمبر: 2068
-" أفضل الجهاد من عقر جواده وأهريق دمه".
سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افضل جہاد اس آدمی کا ہے جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں اور اس کا خون بہا دیا جائے۔“[سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2068]
حدیث نمبر: 2069
-" أفضل الناس (وفي رواية: خير الناس) رجل يجاهد في سبيل الله بماله ونفسه، ثم مؤمن في شعب من الشعاب يعبد الله ربه، ويدع الناس من شره".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کون سے شہدا افضل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا خون بہا دیا اور اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں۔“[سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2069]
حدیث نمبر: 2069M
-" أفضل الشهداء من سفك دمه، وعقر جواده".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: کون سے لوگ افضل ہیں؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے افضل (یا بہتر) وہ آدمی ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتا ہے۔ (اس کے بعد اس) مومن (کا درجہ ہے جو) کسی گھاٹی میں فروکش ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا۔“[سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2069M]
1360. ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد کیوں ہے؟
حدیث نمبر: 2070
-" أفضل الجهاد كلمة عدل (وفي رواية: حق) عند سلطان جائر".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ فضلیت والا جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ عدل (یا کلمہ حق) کہنا ہے۔“ یہ حدیث سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا ابوامامہ، سیدنا طارق بن شہاب اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور امام زہری سے مرسلاً مروی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2070]
1361. حقیقی جہاد اور جہاد کا مقصد
حدیث نمبر: 2071
-" أفضل الجهاد أن تجاهد نفسك وهواك في ذات الله عز وجل".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی ذات کی خاطر تیرا اپنے نفس اور خواہش سے جہاد کرنا۔“[سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2071]
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ضعفا کو میرے لیے تلاش کر کے لاؤ، بیشک تم لوگ انہی کمزوروں کی وجہ سے رزق دیے اور مدد کئے جاتے ہو۔“[سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2072]
1363. غزوہ حنین اور مقتول کافر سے چھینا ہوا مال
حدیث نمبر: 2073
-" كان لا يسأل شيئا إلا أعطاه، أو سكت".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہوازن قبیلہ کے لوگ حنین والے دن عورتوں، بچوں، اونٹوں اور بکریوں سمیت آ گئے۔ ان کو قطاروں میں کھڑا کر دیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنی کثرت کو ظاہر کریں۔ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ مزید فرمایا: ”انصار کی جماعت! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دے دی، نہ کسی کو نیزے کا زخم لگا تھا اور نہ تلوار کی چوٹ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن فرمایا: ”جس نے کسی کافر کو قتل کیا تو اس (مقتول) سے چھینا ہوا مال اسی (قاتل) کے لیے ہو گا۔“ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس دن بیس آدمی قتل کئے اور ان کا مال و متاع بھی لے لیا۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک آدمی کے کندھے کے پٹھے پر مارا اور اس پر زرہ تھی۔ اس کا چھینا ہوا مال میرے پکڑنے سے پہلے کسی اور نے لے لیا۔ اے اللہ کے رسول! ذرا دیکھئیے، وہ شخص کون ہے؟ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ مال لے لیا تھا۔ آپ قتادہ کو اپنی طرف سے راضی کر دیں اور وہ مال میرے پاس ہی رہنے دیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور آپ سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا جاتا، آپ دے دیتے تھے، یا پھر خاموش ہو جاتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! (ایسے نہیں ہو گا) اللہ تعالیٰ نے اپنے شیروں میں سے ایک شیر کو مال دیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجھے دے دیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2073]