-" استعيذوا بالله من عذاب القبر، قالت: قلت: يا رسول الله! وإنهم ليعذبون فى قبورهم؟ قال: نعم عذابا تسمعه البهائم".
سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں بنو نجار کے کسی باغ میں تھی، وہاں دور جاہلیت میں مرنے والوں کی چند قبریں تھیں، انہیں جو عذاب ہو رہا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی دیا۔ سو آپ وہاں سے یہ فرماتے ہوئے نکلے: ”قبر کے عذاب سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کیا کرو۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا ان کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایسا عذاب ہو رہا ہے جسے جانور بھی سنتے ہیں۔“[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1699]
حدیث نمبر: 1700
-" لولا أن لا تدافنوا لدعوت الله عز وجل أن يسمعكم (من) عذاب القبر (ما أسمعني)".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کی کھجوروں کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں اور پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ صحابہ کرام نے جواب دیا کہ ایک آدمی کی قبر ہے جو جاہلیت میں مرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم لوگ (مردوں کو) دفن نہیں کرو گے تو میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا کہ عذاب قبر کی جو آوازیں میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1700]
حدیث نمبر: 1701
- (دخل النبي- صلى الله عليه وسلم - نخلاً لبني النّجار، فسمع أصوات رجالٍ من بني النجار ماتوا في الجاهلية، يعذَّبُون في قبورهم؛ فخرج رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فَزِعاً، فأمر أصحابه أن يتعوذوا من عذاب القبر).
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور جاہلیت میں مرنے والے بنونجار کے آدمیوں کی آوازیں سنیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے خائف و پریشان ہو کر نکلے اور اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگا کریں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1701]
حدیث نمبر: 1702
-" عذاب القبر حق".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور عذاب قبر کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ مجھے عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر (کے ہونے یا نہ ہونے) کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، عذاب قبر حق ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس (واقعہ) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1702]
حدیث نمبر: 1703
-" إن هذه الأمة تبتلى في قبورها، فلولا أن لا تدافنوا لدعوت الله أن يسمعكم من عذاب القبر الذي أسمع منه. قال زيد: ثم أقبل علينا بوجهه فقال: تعوذوا بالله من عذاب النار، قالوا: نعوذ بالله من عذاب النار، فقال: تعوذوا بالله من عذاب القبر، قالوا: نعوذا بالله من عذاب القبر، قال: تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن، قالوا: نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن، قال: تعوذوا بالله من فتنة الدجال، قالوا: نعوذ بالله من فتنة الدجال".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار جا رہے تھے، اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر جائیں۔ راوی حدیث جریری کے شک کے مطابق ادھر چار یا پانچ یا چھ قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ان قبر والوں کو جانتا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ لوگ کب مرے تھے؟“ اس نے کہا: شرک کی حالت میں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(انسانوں کی) امت کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے اور اگر تمہارے دفن نہ کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے۔“ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ”اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو عذاب قبر سے۔“ ہم نے کہا: ہم عذاب قبر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1703]
حدیث نمبر: 1704
-" لو أفلت أحد من ضمة القبر، لأفلت منها هذا الصبي".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بچے کو دفنایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی کو قبر کے دبوچنے سے چھٹکارا مل سکتا ہوتا تو وہ یہ بچہ ہوتا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1704]
حدیث نمبر: 1705
- (يا أيُّها النّاسُ! إن هذه الأمَّةَ تُبتلى في قبورها، فإذا الإنسان دُفنَ فتفرَّق عنه أصحابُه؛ جاءه ملكٌ في يدهِ مِطراقٍ فأقعدَه، قال: ما تقولُ في هذا الرجلِ؟ فإن كان مؤمناً؛ قال: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمداً عبده ورسوله، فيقولُ: صدقْتَ، ثم يُفتحُ له بابٌ إلى النار فيقول: هذا كان منزلَكَ لو كفرْتَ بربك؛ فأمّا إذ آمنتَ؛ فهذا منزلُكَ؛ فيُفتحُ له باب إلى الجنَّة، فيريدُ أن ينهض إليه، فيقول له: اسكنْ! ويُفسحُ له في قبره.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں! اس امت (انسانیت) کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے، جب کسی شخص کو دفن کر دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چلے جاتے ہیں تو ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے، اس کے ہاتھ میں کوٹنے چھیدنے کا آلہ ہوتا ہے، وہ اس شخص کو بٹھا کر پوچھتا ہے: اس آدمی کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ اگر وہ مومن ہو تو جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ کہتا ہے: تو نے سچ کہا:۔ پھر جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ دیکھ اگر تو اپنے رب کے ساتھ کفر کرتا تو یہ تیرا ٹھکانہ ہوتا۔ اب جبکہ تو ایمان لایا ہے، تیری منزل یہ ہے، اس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اب وہ شخص (جنت میں داخل ہونے کے لیے) اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے، لیکن فرشتہ کہتا ہے: ٹھیر جا! پھر اس کی قبر کو وسیع کر دیتا ہے۔ اگر دفن کیا جانے والا کافر یا منافق ہو تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تو نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا، اسی طرح کہا تو تھا (لیکن اب میرے ذہن میں کوئی جواب نہیں ہے)۔ فرشتہ کہتا ہے: نہ تو نے سوجھ بوجھ حاصل کی، نہ تو نے پڑھا اور نہ تو نے ہدایت پائی۔ پھر جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ تیری منزل ہوتی بشرطیکہ تو اپنے رب پر ایمان لاتا، اب جبکہ تو کافر ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھے اس کے بدلے یہ ٹھکانہ دیا ہے، اتنے میں جہنم کی طرف سے دروازہ کھول دیتا ہے اور اس کے سر پر وہ آلہ (اس زور سے) مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ہر کوئی اس کی آواز سنتا ہے۔ یہ حدیث سن کر بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو شخص بھی فرشتے کے ہاتھ میں وہ آلہ دیکھے گا وہ (دہشت کی وجہ سے) بے شعور سا ہو کر رہ جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً یہ آیت تلاوت فرمائی: «يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ»(سورہ ابراھیم: ۲۷) اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ ثابت قدم رکھتا ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1705]
1144. سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی قبر کی دبوچ سے نہ بچ سکے، بچے کو بھی قبر نے دبوچ لیا
حدیث نمبر: 1706
-" إن للقبر ضغطة، فلو نجا أو سلم أحد منها لنجا سعد بن معاذ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبر ایک دفعہ تو تنگ کرتی ہی ہے، اگر اس کے دباؤ سے کوئی نجات پاتا یا سالم رہتا تو وہ سعد بن معاذ ہوتے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1706]
حدیث نمبر: 1707
-" لو أفلت أحد من ضمة القبر، لأفلت منها هذا الصبي".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بچے کو دفنایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی کو قبر کے دبوچنے سے چھٹکارا مل سکتا ہوتا تو وہ یہ بچہ ہوتا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1707]
1145. مومن قبر میں ثابت قدم رہتا ہے
حدیث نمبر: 1708
- (إذا أُقعِدَ المؤمنُ في قبرِه؛ أُتي، ثمّ شهِدَ أن لا إله إلا اللهُ، وأنّ محمّداً رسولُ اللهِ، فذلك قولُه: (يثبّتُ اللهُ الذينَ آمنوا بالقولِ الثابتِ) [قال: نزلت في عذاب القبر]).
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن کو قبر میں بٹھا دیا جاتا ہے اور فرشتے آتے ہیں تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے۔“، یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“ ایک روایت میں ہے: ”جب مسلمان سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ جواباً گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس قول کی مصداق ہے: اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی۔“(سورۃ ابراہیم: ۲۷)[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1708]