930. امراء کی نجات عدل و انصاف اور نیکی و پارسائی میں ہے
حدیث نمبر: 1330
-" ما من أمير عشرة إلا يؤتى به يوم القيامة مغلولا، لا يفكه إلا العدل أو يوبقه الجور".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس آدمیوں کے امیر کو بھی قیامت کے روز اس حال میں لایا جائے گا کہ وہ جکڑا ہوا ہو گا، اس کا عدل و انصاف اس کو آزاد کرائے گا یا اس کا ظلم و ستم اس کو ہلاک کر دے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1330]
حدیث نمبر: 1331
-" ما من رجل يلي أمر عشرة فما فوق ذلك إلا أتى الله عز وجل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه فكه بره أو أوبقه إثمه، أولها ملامة وأوسطها ندامة وآخرها خزى يوم القيامة".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی دس افراد کے معاملات کی ذمہ واری سنبھالتا ہے، وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے پاس اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن تک جکڑے ہوں گے۔ اس کی نیکی اس کو آزاد کرائے گی یا اس کی برائی اس کو ہلاک کر دے گی۔ (اس امارت) کی ابتداء میں ملامت، درمیان میں ندامت اور آخر میں یعنی قیامت کے روز رسوائی ہوتی ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1331]
931. خلیفہ کے اخراجات کی مقدار
حدیث نمبر: 1332
-" لا يحل للخليفة إلا قصعتان قصعة يأكلها هو وأهله، وقصعة يطعمها".
عبداللہ بن زریر غفاری کہتے ہیں کہ ہم عیدالاضحیٰ کے موقع پر سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انہوں نے (بطور ضیافت) خزیرہ پیش کیا، (یہ قیمے اور آٹے سے تیار کیا جانے والا ایک قسم کا کھانا ہوتا ہے)۔ ہم نے کہا: امیر المؤمنین! اگر آپ بطخ اور مرغابی کا گوشت پیش کر دیتے تو (بہت اچھا ہوتا) اور مال کثیر موجود ہے۔ انہوں نے کہا: ابن زریر! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”خلیفہ کے لیے صرف دو پیالے حلال ہیں: ایک پیالہ اس کے اور اہل کے کھانے کے لیے اور ایک کسی کو کھلانے کے لیے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1332]
932. اللہ تعالیٰ نیک حکمرانوں کو خود وزیر عطا کرتا ہے
حدیث نمبر: 1333
-" من ولى منكم عملا فأراد الله به خيرا جعل له وزيرا صالحا إن نسي ذكره وإن ذكر أعانه".
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنی پھوپھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی کسی کام کا ذمہ دار بنے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ کر رکھا ہو تو وہ اس کو ایک نیک وزیر عطا کرے گا کہ اگر وہ بھول گیا تو وہ اسے یاد کرائے گا اور اگر اسے یاد رہا تو وہ اس کی مدد کرے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1333]
933. جماعت کا التزام کرنا
حدیث نمبر: 1334
-" أحسنوا إلى أصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يجيء قوم يحلف أحدهم على اليمين قبل أن يستحلف عليها، ويشهد على الشهادة قبل أن يستشهد، فمن أحب منكم أن ينال بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، فإن الشيطان مع الواحد، وهو من الاثنين أبعد، ولا يخلون رجل بامرأة، فإن ثالثهما الشيطان، ومن كان منكم تسره حسنته، وتسوءه سيئته فهو مؤمن".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ پر خطبہ د یتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے مقام، جس طرح میں کھڑا ہوں، پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا تھا: ”میرے صحابہ سے اچھے برتاؤ اور حسن سلوک والا معاملہ کرنا، پھر ان لوگوں سے جو ان کے بعد ہوں گے اور پھر ان لوگوں سے بھی، جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قسم اٹھائیں گے حالانکہ ان سے قسم کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اور گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ جو آدمی جنت کے وسط (میں مقام) حاصل کرنا چاہتا ہے وہ جماعت کو لازم پکڑے، کیونکہ ایک آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے، دو سے ذرا دور ہو جاتا ہے۔ کوئی مرد (غیر محرم) عورت کے ساتھ خلوت میں نہ جائے، کیونکہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ مومن وہ ہے جس کو اس کی نیکی اچھی لگی اور برائی بری لگے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1334]
934. جماعت سے دور رہے اور مصبیت کے لیے لڑنے کا وہال
حدیث نمبر: 1335
-" من خرج من الطاعة وفارق الجماعة، فمات مات ميتة جاهلية ومن قاتل تحت راية عمية يغضب لعصبة أو يدعو إلى عصبة أو ينصر عصبة، فقتل، فقتلة جاهلية ومن خرج على أمتي يضرب برها وفاجرها ولا يتحاشى من مؤمنها ولا يفي لذي عهد عهده، فليس مني ولست منه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے حکمران کی اطاعت ترک کر دی اور جماعت سے مفارقت اختیار کر لی اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت والی موت مرے گا۔ جس نے اندھا دھند جھنڈے کے نیچے لڑائی کی، عصبیت کی بنا پر غصے میں آیا، عصبیت کی طرف دعوت دی اور عصبیت کی بنا پر مدد کی اور قتل ہو گیا تو وہ بھی جاہلیت والی موت مرے گا اور جو میری امت پر بغاوت کرتے ہوئے نکلا، نیکوکاروں اور بدکاروں کو قتل کرتا گیا، مومن سے کنارہ کشی نہ کی اور عہد والے کا عہد پورا نہ کیا تو وہ مجھ سے نہیں ہے اور میں اس سے نہیں ہوں۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1335]
حدیث نمبر: 1336
-" من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة ولا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے (حکمران کے جائز کاموں میں) اطاعت سے ہاتھ اٹھا لیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے روز اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1336]
حدیث نمبر: 1337
-" من قتل تحت راية عمية، يدعو عصبية أو ينصر عصبية، فقتلته جاهلية".
سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اندھا دھند جھنڈے کے نیچے قتل ہوا، جہاں اس نے عصبیت کے لیے پکارا یا عصبیت کی بنا پر مدد کی، تو اس کا قتل ہونا جاہلیت والا ہو گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1337]
935. کن امور پر بیعت کی جائے
حدیث نمبر: 1338
- (بايعنَا رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -على السمعِ والطّاعةِ في العُسر واليُسر، والمنشَطِ والمَكره، وعلى أثَرةٍ علينا، وعَلى أن لا نُنازعَ الأمرَ أَهله، [إلا أن ترَوا كُفراً بَواحاً، عندكم من اللهِ فيه بُرهانٌ]، وعلى أن نقولَ بالحقِّ أينَما كنَّا، لا نخافُ في اللهِ لومة لائمٍ).
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگدستی و خوشحالی میں اور پسند و ناپسند میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سننے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات پر ترجیح دینے کی بیعت کی ہے، اور اس بات پر بھی کہ ہم (امارت کے) معاملے کو اس کے اہل لوگوں سے نہیں چھینیں گے، الایہ کہ اگر صریح کفر نظر آ جائے اور اللہ کی طرف سے کوئی واضح دلیل ہو، اور اس بات پر (بھی بیعت کی کہ) ہم جہاں بھی ہوں گے حق کا اظہار کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1338]
حدیث نمبر: 1339
-" تبايعوني على السمع والطاعة في النشاط والكسل والنفقة في العسر واليسر وعلى الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وأن تقولوا في الله لا تخافون في الله لومة لائم وعلى أن تنصروني فتمنعوني إذا قدمت عليكم مما تمنعون منه أنفسكم وأزواجكم وأبناءكم ولكم الجنة".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال تک ٹھہرے رہے، عکاظ، مجنہ اور حج کے موسم میں منیٰ جا کر لوگوں کو کہتے: ”کون ہے جو مجھے پناہ دے، کون ہے جو میری مدد کرے، تاکہ میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں اور اسے جنت مل سکے؟“ جب یمن یا مضر کا کوئی باشندہ مکہ میں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اسے ملتی اور کہتی کہ قریش کے فلاں آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٰ) سے بچ کر رہنا، کہیں وہ تجھے بھٹکا نہ دے، آپ ان کے گھروں میں چل رہے ہوتے تھے، وہ آپ کی طرف اشارے کر کے آپ کا تعین کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یثرب (مدینہ) سے آپ کی طرف بھیجا ہم نے آپ کو جگہ دی اور آپ کی تصدیق کی ہمارا آدمی آپ کے پاس پہنچتا۔ آپ پر ایمان لاتا۔ آپ اسے قرآن مجید پڑھاتے، پھر وہ اپنے گھر لوٹ آتا اور لوگ اس کے ذریعے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے، یہاں تک کہ انصاریوں کے ہر محلے میں مسلمانوں کی ایک معقول تعداد بن گئی۔ ایک دن ان سب (انصاریوں) نے مشورہ کیا اور کہا: کہ ہم کب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑے رکھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے پہاڑوں میں در بدر اور ڈرتے ڈرتے پھرتے رہیں گے؟ اس مشورے کے بعد حج کے موسم میں ہم میں سے ستر آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہو گئے، عقبہ گھاٹی میں جمع ہونے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طے پایا۔ ہم ایک دو دو آدمیوں کی صورت میں وہاں جمع ہوتے رہے، یہاں تک کہ سارے اکٹھے ہو گئے ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کی بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس بات پر میری بیعت کرو کہ چستی و سستی میں میری بات سنو گے اور مانو گے، تنگدستی او خوشحالی میں خرچہ کرو گے، نیکی کا حکم کرو گے اور برائی سے منع کرو گے، تم اللہ کے حق میں بات کرو گے اور اس کے بارے میں ملامت والے کی ملامت سے نہیں ڈرو گے، جب میں تمہارے پاس آ جاؤں تو میری مدد کرو گے اور جن (مکروہات سے) اپنے آپ کو، اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو بچاتے ہو، مجھے بھی بچاؤ گے، (اگر تم نے ایسے کیا تو) تمہیں جنت ملے گی۔“ ہم یہ سن کر آپ کی بیعت کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، لیکن سعد بن زرارہ، جو سب سے چھوٹا تھا، نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: یثرب والو! ذرا ٹھہرو، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ہی سمجھ کر سفر کر کے آئیں ہیں، (لیکن یاد رکھو کہ) آپ کو مکہ سے نکالنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا عرب ہم سے جدا ہو جائے گا، ہمارے سردار قتل ہوں گے اور تم تلواروں کا لقمہ بنو گے۔ اگر تم (ان آزمائشوں پر) صبر کرتے ہو تو ٹھیک ہے اور اگر بزدلی کی بنا پر ڈرنا ہے تو ابھی وضاحت کر دو، تاکہ تم اللہ کے ہاں اپنا عذر پیش کر سکو۔ ہم نے کہا: سعد! اب آگے سے ہٹ جاؤ، اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو چھوڑیں گے نہ توڑیں گے۔ ہم کھڑے ہوئے، آپ کی بیعت کی، آپ نے ہم سے بیعت لی اور ہم پر کچھ شرطیں عائد کیں اور اس کے بدلے ہم کو جنت عطا کی۔ [سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1339]