الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
الحج والعمرة
حج اور عمرہ
707. عورتوں نے بال کٹوانے ہیں، منڈوانے نہیں
حدیث نمبر: 1040
-" ليس على النساء حلق، إنما على النساء التقصير".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے لیے بال منڈوانا نہیں ہیں، ان پر صرف بال کٹوانا ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1040]
708. یوم عرفہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 1041
-" ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة وإنه ليدنو، ثم يباهي بهم الملائكة، فيقول: ما أراد هؤلاء؟".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے، جس میں اللہ تعالیٰ باقی دنو ں کی بہ نسبت سب سے زیادہ لوگوں کو آگ آزاد کرتے ہوں، مگر عرفہ کا دن۔ اللہ تعالیٰ اس دن کو (اپنے بندوں کے) قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1041]
709. تکلیف دہ اور غلط نذر کو توڑ دینا چاہیے
حدیث نمبر: 1042
-" مروها فلتركب ولتختمر [ولتحج]، [ولتهد هديا]".
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری بہن نے نذر مانی کہ وہ کعبہ کی طرف ننگے پاؤں اور ننگے سر جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا: اس کو کیا ہوا۔ لوگوں نے کہا: اس نے کعبہ کی طرف ننگے پاؤں اور ننگے سر جانے کی نذر مانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو حکم دو کہ وہ سوار ہو جائے اور چادر اوڑھ لے اور حج ادا کرے اور ہدی پیش کرے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1042]
710. وادی محصب میں قیام کرنا سنت ہے
حدیث نمبر: 1043
-" من السنة النزول بـ (الأبطح) عشية النفر".
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ادائے حج کے بعد) روانگی کی شام کو ابطح وادی میں قیام کرنا سنت ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1043]
711. صفا و مروہ کی سعی کے دوران دوڑنا
حدیث نمبر: 1044
-" لا يقطع الأبطح إلا شدا".
سیدہ ام ولد شیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صفا اور مروہ کے (درمیانی ہمورا حصے) میں دوڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے: وادی ابطح کو طے نہ کیا جائے، مگر دوڑ کر۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1044]
712. عورت محرم کے ہمراہ حج کرے
حدیث نمبر: 1045
- (لا تَحُجُّ امرأةٌ إلا ومعها مَحْرَمٌ).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے نبی! فلاں غزوے میں میرے نام کا اندراج کیا جا چکا ہے، جبکہ میری بیوی حج کے لیے روانہ ہونے والی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم واپس چلے جاؤ اور اس کے ساتھ حج ادا کرو۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1045]
713. مزدلفہ کی صبح کو حاجیوں کے اجتماع پر رحمت الہی
حدیث نمبر: 1046
-" إن الله تطول عليكم في جمعكم هذا، فوهب مسيئكم لمحسنكم، وأعطى محسنكم ما سأل، ادفعوا باسم الله".
سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی صبح کو فرمایا: بلال! لوگوں کو خاموش کراؤ۔ پھر فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان (اور مہربانی) کی ہے اور تمہارے نیکوکاروں کی وجہ سے بروں کو بھی عطا کر دیا ہے اور نیکوکاروں نے جو کچھ مانگا ہے، انہیں دے دیا ہے۔ اب اللہ کے نام کے ساتھ واپس چلو۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1046]
714. قریشیوں نے دور جاہلیت میں تعمیر کعبہ میں کیا کمی کوتا ہی کی؟ تعمیر کعبہ کے بارے میں نبوی اصلاحات، مصلحت سے پہلے مفسدت کو دور کرنا
حدیث نمبر: 1047
-" يا عائشة لولا أن قومك حديثو عهد بشرك وليس عندي من النفقة ما يقوي على بنائه لأنفقت كنز الكعبة في سبيل الله ولهدمت الكعبة فألزقتها بالأرض ثم لبنيتها على أساس إبراهيم وجعلت لها بابين بابا شرقيا يدخل الناس منه وبابا غربيا يخرجون منه وألزقتها بالأرض وزدت فيها ستة أذرع من الحجر. (وفي رواية: ولأدخلت فيها الحجر) فإن قريشا اقتصرتها حيث بنت الكعبة، فإن بدا لقومك من بعدي أن يبنوه فهلمي لأريك ما تركوه منه، فأراها قريبا من سبعة أذرع".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اگر تیری قوم کا عہد، زمانہ شرک کے قریب قریب نہ ہوتا اور میرے پاس کعبہ کی عمارت (کو مکمل کرنے کے) اخراجات بھی نہیں ہیں، تو میں کعبہ کے خزانے کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دیتا، کعبہ کی عمارت کو گرا دیتا، اس کو زمین کے ساتھ ملا دیتا، پھر ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر تعمیر کرتا، پھر اس کے دو دروازے رکھتا جو (‏‏‏‏بلند ہونے کی بجائے) زمین سے ملے ہوتے، ایک دروازہ مشرقی ہوتا، جس سے لوگ داخل ہوتے اور ایک مغربی ہوتا، جس سے لوگ نکل جاتے اور حطیم کی چھ ہاتھ چھوڑی ہوئی جگہ کو کعبہ کی عمارت میں داخل کر دیتا، کیونکہ قریشیوں نے جب کعبہ کی تعمیر کی تھی تو انہوں نے (اخراجات کی کمی کے باعث اصل عمارت) میں کمی کر دی تھی۔ (عائشہ!) اگر میرے بعد تیری قوم والے دوبارہ اس کی تعمیر کرنا چاہیں تو آؤ میں تمہارے لیے چھوڑی ہوئی جگہ کی نشاندہی کر دیتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سات ہاتھ کے لگ بھگ جگہ دکھائی۔ ایک روایت میں ہے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے (کعبہ کی ایک طرف کے) گھیرے یا حطیم کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آیا یہ بیت اللہ کا حصہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: تو پھر (قریشیوں نے) اس کو (عمارت میں) داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری قوم کے لیے اخراجات کم پڑ گئے تھے۔ میں نے کہا: بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری قوم (قریش) نے (جان بوجھ کر) ایسے کیا، تاکہ اپنی مرضی کے مطابق بعض لوگوں کو داخل کریں اور مرضی کے مطابق بعض لوگوں کو روک لیں۔ ایک روایت میں ہے: انہوں نے ایسا اپنی طاقت (اور فخر) کی بنا پر کیا تاکہ وہی داخل ہو سکے، جس کے بارے میں ان کا ارادہ ہو۔ (جس آدمی کے داخلے کے بارے میں اس کی مرضی نہیں ہوتی تھی تو) وہ اسے چھوڑ دیتے، وہ داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھتا، لیکن جب داخل ہونے لگتا تو وہ اسے دھکا دے دیتے اور وہ گر جاتا تھا۔ اگر تیری قوم کا عہد، زمانہ جاہلیت کے قریب قریب نہ ہونا، تو تو دیکھتی کہ میں حطیم کو بیت اللہ کی عمارت میں داخل کر دیتا اور دروازے کو زمین کے ساتھ ملا دیتا، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان لوگوں کے دل اس کو اجنبی اور عجیب سمجھنے لگیں گے۔ جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حکمران بنے تو انہوں نے کعبہ کی عمارت کو گرا دیا اور اس کے دو دروازے رکھ دیے۔ ایک روایت! میں ہے: یہی حدیث تھی، جس نے ابن زبیر کو کعبہ کی عمارت گرانے پر آمادہ کیا۔ یزید بن رومان کہتے ہیں: جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا نے عمارت کو گرا کر تعمیر کیا اور حطیم کو اس میں داخل کیا، تو میں بھی موجود تھا، میں نے ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیاد دیکھی، اونٹوں کی کوہانوں کی طرح کے (بڑے بڑے) پتھر تھے، جو باہم جڑے ہوئے، (مستحکم) اور ایک دوسرے میں پیوست تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحج والعمرة/حدیث: 1047]

Previous    2    3    4    5    6