الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
الاذان و الصلاة
اذان اور نماز
حدیث نمبر: 671
-" لأن تصلي المرأة في بيتها خير لها من أن تصلي في حجرتها، ولأن تصلي في حجرتها خير لها من أن تصلي في الدار ولأن تصلي في الدار خير لها من أن تصلي في المسجد".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کا (اپنی مخصوص) اقامت گاہ میں نماز پڑھنا (عام) کمرے میں پڑھنے سے بہتر ہے اور عام کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں پڑھنے سے بہتر ہے اور گھر کےصحن میں نماز پڑھنا مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 671]
444. عورتوں کا مسجد میں آنا اور اس کے آداب
حدیث نمبر: 672
-" إذا خرجت إحداكن إلى المسجد فلا تقربن طيبا".
سیدہ زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جب تم میں سے کوئی عورت مسجد کی طرف جائے تو خوشبو ہرگز نہ لگائے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 672]
حدیث نمبر: 673
-" إذا خرجت المرأة إلى المسجد فلتغتسل من الطيب كما تغتسل من الجنابة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت مسجد کی طرف جائے تو خوشبو (کا اثر ختم کرنے کے لئے) جنابت کے غسل کی طرح نہائے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 673]
حدیث نمبر: 674
- (أيّما امرأة أصابت بخوراً؛ فلا تشهد معنا العشاء الآخرة).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت (خوشبو والی) دھونی لگائے وہ ہمارے ساتھ نماز عشا پڑھنے کے لئے نہ آئے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 674]
445. بعض گناہوں کی وجہ سے نمازیوں، روزے داروں، حاجیوں اور مجاہدوں کا جہنم میں جانا بھی ممکن ہے
حدیث نمبر: 675
- (إذا خَلصَ المؤمنونَ من النار وأَمِنُوا؛ فـ[والذي نفسي بيده!] ما مُجَادَلَةُ أحَدِكُم لصاحبِهِ في الحقِّ يكون له في الدنيا بأشدِّ من مجادلة المؤمنين لربِّهم في إخوانِهِمُ الذين أُدْخِلُوا النار. قال: يقولون: ربَّنا:! إخوانُنَا كانوا يصلُّون معنا؛ ويصومون , معنا؛ ويحُجُّون معنا؛ [ويُجاهدون معنا] ؛ فأدخلتَهم النار. قال: فيقولُ: اذهَبُوا فأخرِجُوا من عَرَفْتُم منهم؛ فيأتُونهم؛ فَيَعْرفونَهُم بِصُورِهم؛ لا تأكلُ النار صُوَرَهُم؛ [لم تَغْشَ الوَجْهَ] ؛ فَمِنْهم من أَخَذتْهُ النارُ إلى أنصافِ ساقَيْهِ؛ ومنهم من أخذته إلى كَعْبَيْه (¬1) [فَيُخرِجُونَ مِنْها بشراً كثيراً] ؛ فيقولون: ربَّنا! قد أَخْرَجنا مَنْ أَمَرتنا. قال: ثم [يَعُودون فيتكلمون فـ] يقولُ: أَخْرِجُوا من كان في قلبهِ مِثقالُ دينارٍ من الإيمانِ. [فيُخرِجُون] ¬ (¬1) الأصل: ((كفيه)) وعلى الهامش: ((في ((مسلم)): ركبتيه)). قلت: والتصويب من ((المسند)) ؛ و ((النسائي)) ؛و ((ابن ماجة)). وفي ((البخاري)): ((قدميه)) وفي رواية مسلم سويد بن سعيد؛ وهو متكلم فيه. خلقاً كثيراً]، ثم [يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها أحداً ممن أَمَرتَنا. ثم يقول: ارجعوا، فـ] من كان في قلبه وزنُ نصف دينارٍ [فأًخْرِجُوهُ. فيُخرِجونَ خلقاً كثيراً، ثم يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها ممن أمرتنا... ] ؛ حتى يقول: أخرِجُوا من كان في قلبه مثقال ذَرَّةٍ. [فيخرجون خلقاً كثيراً]، قال أبو سعيد: فمن لم يُصّدِّقْ بهذا الحديث فليَقْرَأْ هذه الآية: (إن الله لايظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لَدُنْهُ أجراً عظيماً) [النساء /40] ؛ قال: فيقولون: ربنا! قد أَخْرَجْنا من أمرتنا؛ فلم يَبْقَ في النار أحدٌ فيه خيرٌ. قال: ثم يقول الله: شفعَتِ الملائكة؛ وشَفَعَتِ الأنبياء؛ وشَفَعَ المؤمنون؛ وبَقِيَ أرحم الراحمين قال: فَيَقْبضُ قبضةً من النار- أو قال: قَبْضَتَينِ - ناساً لم يعملوا خيراً قََطُّ؛ قد احتَرَقُوا حتى صاروا حُمَماً. قال: فَيُؤْتَى بهم إلى ماء يُقالُ له: (الحياةُ) ؛ فَيُصَبُّ عليهم؛ فَيَنْبُتُونَ كما تَنْبُتُ الحبَّةُ في حَمِيلِ السَّيلِ؛ [قد رَأَيْتُمُوها إلى جانب الصخرة؛ وإلى جانب الشجرة؛ فما كان إلى الشمس منها كان أخضر؛ وما كان منها إلى الظلِّ كان أبيض] ؛ قال: فَيَخْرُجُونَ من أجسادِهِم مِثلَ اللؤلؤِ؛ وفي أعناقهم الخاتمُ؛ (وفي رواية: الخواتِمُ): عُتَقاءُ الله. قال: فيُقالُ لَهُمُ: ادخلوا الجنة؛ فما تمنَّيتمُ وَرَأيتُم من شيءٍ فهو لكُم [ومِثلُهُ مَعَهُ]. [فيقول أهل الجنة: هؤلاء عُتقاءُ الرحمن أَدْخَلَهُمُ الجنة بغيرِ عملٍ عَمِلُوهُ؛ ولا خيرٍ َقدَّمُوهُ]. قال: فيقولون: ربَّنا! أَعَطَيْتَنا ما لم تُعطِ أحداً من العالمين. قال: فيقول: فإن لكم عندي أفْضَلَ منه. فيقولون: ربَّنا! وما أَفْضَلُ من ذلكَ؟ [قال:] فيقولُ: رِضائي عَنْكُم؛ فلا أَسْخَطُ عليكم أبداً).
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤمن جہنم کی آگ سے بچ جائیں گے اور بے فکر ہو جائیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے مومن بھائیوں کے بارے میں اپنے رب سے بہت زور شور سے بحث و مباحثہ کریں گے، جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے ساتھی کے دنیوی حق کو حاصل کرنے کے لیے جھگڑتا ہے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے بھائی، جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے، روزے رکھتے حج ادا کرتے اور جہاد کرتے تھے، تو نے ان کو آگ میں دا خل کر دیا ہے، (ایسا کیوں ہے)؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جاؤ، جن کو پہچانتے، ہو، انہیں نکال لاؤ۔ وہ ان کے پاس جائیں گے، انہیں ان کی شکلوں سے پہچانیں گے، کیونکہ آگ ان کی صورتوں یعنی چہروں کو نہیں جلائے گی، کسی پر آگ کا اثر نصف پنڈلی تک ہو گا اور کسی پر گھٹنوں تک، وہ وہاں سے بہت سے انسانوں کو نکال لائیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے رب! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھا، ہم ان کو نکال لائے ہیں۔ وہ پھر وہی بات کریں گے (کہ ہمارے بھائی جہنم میں ہیں)، جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جس کے دل میں دینار کے وزن کے بقدر ایمان ہے، اسے بھی نکال لاؤ۔ وہ جائیں گے اور بہت سارے انسانوں کو نکال لائیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جن کو نکالنے کا حکم دیا ہم نے ان میں کسی کو نہیں چھوڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تیسری بار چلو اور جس کے دل میں نصف دینار کے وزن کے بقدر ایمان ہے، اسےبھی جہنم سے باہر نکال لاؤ۔ وہ بہت سے لوگوں کو نکال کر پھر کہیں گے: اے ہمارےرب! تو نے جن کا حکم دیا، ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا حتی کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہے، اسے بھی نکال لاؤ۔ سو وہ بہت سوں کو نکال لائیں گے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو آدمی اس حدیث کی تصدیق نہ کرے وہ یہ آیت پڑھے: «إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا» اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اگر (کسی کی) کوئی نیکی ہو گی تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور اپنی جناب سے اجر عظیم عطا کرے گا۔ (۴-النساء:۴۰) پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تیرے حکم کے مطابق ہم (ذرہ برابر ایمان والوں) کو بھی جہنم سے نکال لائے ہیں، اب وہاں کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس کے دل میں کوئی خیر ہو۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے: فرشتے سفارش کر چکے، انبیاء سفارش کر چکے اور مومنوں نے بھی سفارش کر لی۔ اب صرف «ارحم الراحمين» باقی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ خود جہنم سے ایسے لوگوں کی ایک یا دو مٹھیاں بھر کر لائیں گے، جنہوں نے کوئی نیک عمل نہیں کیا ہو گا۔ وہ جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ ان کو حیاۃ نامی پانی کے پاس لایا جائے گا اور ان پر یہ پانی بہایا جائے گا، ان کا جسم سیلاب کے کوڑا کرکٹ میں اگنے والے دانے کی طرح اگے گا۔ تم لوگوں نے کسی چٹان یا درخت کے پاس ایسا دانہ اگتا ہوا دیکھا ہو گا، سورج کی سمت میں اگنے والے بوٹے سبز اور سائے میں اگنے والے سفید ہوتے ہیں۔ اس پانی کے بہانے سے ان کے جسم موتی کی طرح ہو جائیں گے اور ان کی گردنوں میں «عُتَقَا ءُالله» کی مہر ہو گی۔ انہیں کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ، جو کچھ تمنا کرو گے اور جو کچھ دیکھو گے، وہ اور مزید اس کی مثل بھی تمہیں دیا جائے گا۔ اہل جنت کہیں گے: یہ لوگ رحمٰن کے آزاد شدہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو بغیر کسی عمل اور بغیر کسی خیر و بھلائی کے جنت میں داخل کر دیا ہے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میرے پاس تمہارے لیے اس سے بھی افضل چیز ہے۔ وہ پوچھیں گے: ہمارے رب! وہ افضل چیز کون سی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میں تم سے راضی ہو گیا ہوں، اب تم پر کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 675]
446. اذان دینے کا ثواب
حدیث نمبر: 676
-" من أذن اثنتي عشرة سنة وجبت له الجنة وكتب له بتأذينه في كل مرة ستون حسنة وبإقامته ثلاثون حسنة".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بارہ سال اذان دی، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی اور ہر دفعہ اس کی اذان پر ساٹھ اور اقامت پر تیس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 676]
447. دوہری اذان اور اکہری اقامت
حدیث نمبر: 677
-" أشفع الأذان وأوتر الإقامة".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان دوہری اور اقامت اکہری کہا کر۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 677]
448. اذان کے کلمات کا جواب دینا
حدیث نمبر: 678
-" إذا سمعتم المنادي يثوب بالصلاة فقولوا كما يقول".
سہل بن معاذ اپنے باپ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جب تم مؤذن کو نماز کے لیے اذان دیتے سنو تو وہی کلمات دوہراؤ جو وہ کہہ رہا ہوتا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 678]
حدیث نمبر: 679
-" كان إذا سمع المؤذن قال مثل ما يقول، حتى إذا بلغ (حي على الصلاة، حي على الفلاح) قال: لا حول ولا قوة إلا بالله".
سیدنا ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہےکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن (کی اذان کی آواز) سنتے تو اسی طرح کہتے جس طرح وہ کہتا، لیکن جب وہ «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» کہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم «ولا حول ولا قوة الا بالله» برائی سے بچنے کی قوت اور نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے کہتے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 679]
449. اذان کے وقت شیطان کی کیفیت
حدیث نمبر: 680
- (إن الشيطانَ إذا سمعَ النِّداء بالصّلاة؛ ذهبَ حتّى يكون مكانَ الرّوحاء).
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب شیطان اذان سنتا ہے تو (بھاگ کر) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحا مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة/حدیث: 680]

Previous    17    18    19    20    21    22    23    24    25    Next