204. احادیث کے مفاہیم کو طبعی مزاج سے مقدم سمجھا جائے
حدیث نمبر: 307
-" تخصر بهذه حتى تلقاني، وأقل الناس المتخصرون. قاله لعبد الله بن أنيس الجهني".
محمد بن کعب روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے، جو میرے لئے خالد بن نبیح (کو قتل کر دے)؟ اس شخص کا تعلق ہذیل قبیلے سے تھا اور ان دنوں وہ عرفہ کی جانب، عرنہ مقام میں سکونت پذیر تھا۔ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں (اسے قتل کروں گا)، آپ اس کی صفات بیان کر دیں، (تا کہ میں اسے پہچان لوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو اسے دیکھے گا تو ڈر جائے گا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کرنے والی ذات کی قسم! میں تو (آج تک) کسی چیز سے نہیں ڈرا۔ راوی کہتا ہے: بہرحال سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ روانہ ہو گئے اور غروب آفتاب سے قبل عرفہ کے پہاڑوں تک پہنچ گئے۔ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وہاں ایک آدمی کو ملا اور جب میں نے اسے دیکھا تو مرعوب ہو گیا۔ جب میں اس سے ڈرا تو مجھے پتہ چل گیا کہ یہ وہی نشانی ہے، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی کی تھی۔ اس نے مجھے کہا: کون ہے؟ میں نے کہا: ضرورت مند ہوں، کیا رات گزارنے کی گنجائش ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آ جاو۔ میں اس کے پیچے چل پڑا، میں نے جلدی جلدی دو رکعت نماز عصر ادا تو کر لی، لیکن، لیکن ڈرتا رہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے (نماز پڑھتے ہوئے) دیکھ لے۔ پھر میں اسے جا ملا کا اور تلوار کا وار کر کے اسے قتل کر دیا۔ پھر میں وہاں سے نکل پڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کی خبر دی۔ محمد بن کعب کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک لاٹھی دی اور فرمایا: ”اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں ہی رکھنا حتٰی کہ مجھے آ ملو اور لاٹھی پکڑنے والے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔“ محمد بن کعب کہتے ہیں: جب سیدنا عبداللہ بن بن انیس رضی اللہ عنہ فوت ہونے لگے تو انہوں نے لاٹھی کے بارے میں حکم دیا تو وہ ان کے پیٹ اور کفن کے اوپر رکھ دی گئی اور پھر اس کو ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 307]
205. عبادت کا دارومدار سنت سے موافقت پر ہے، نہ کہ کثرت پر
حدیث نمبر: 308
-" إن قوما يقرءون القرآن، لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية".
عمرو بن سلمہ ہمدانی کہتے ہیں کہ ہم قبل از نماز فجر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے، جب وہ نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑتے، ایک دن سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور پوچھا: ابھی تک ابوعبدالرحمٰن (ابن مسعود) تمہارے پاس نہیں آئے؟ ہم نے کہا: نہیں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، (ہم انتظار کرتے رہے) حتٰی کہ سیدنا عبداللہ تشریف لائے، جب وہ آئے تو ہم بھی ان کی طرف کھڑے ہو گئے۔ ابوموسٰی نے انہیں کہا: ابوعبدالرحمٰن! ابھی میں نے مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا، لیکن اللہ کے فضل سے وہ نیکی کی ہی ایک صورت لگتی ہے۔ انہوں نےکہا: وہ ہے کیا؟ ابوموسیٰ نے کہا: اگر آپ زندہ رہے تو خود بھی دیکھ لیں گے، میں نے دیکھا کہ لوگ حلقوں کی صورت میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہے ہیں، ان کے سامنے کنکریاں پڑی ہیں، ہر حلقے میں ایک (مخصوص) آدمی کہتا ہے: سو دفعہ ”اللہ اکبر“ کہو۔ یہ سن کر حلقے والے سو دفعہ ”اللہ اکبر“ کہتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے: سو دفعہ ”سبحان اللہ“ کہو۔ یہ سن کر وہ سو دفعہ ”سبحان اللہ“ کہتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: اس عمل پر تو نے ان کو کیا کہا؟ ابوموسٰی نے کہا: میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں کچھ نہیں کہا: انہوں نے کہا: تو نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا: کہ وہ (ایسے نیک اعمال کی بجائے) برائیاں شمار کریں اور یہ ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں (کبھی بھی) ضائع نہیں ہوں گی (لیکن وہ ہوں نیکیاں)؟ پھر وہ چل پڑے، ہم بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ ایک حلقے کے پاس گئے، ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ کنکریاں ہیں، ہم ان کے ذریعے تکبیرات، تہلیلات اور تسبیحات کو شمار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ایسی (نیکیوں کو) برائیاں تصور کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کسی نیکی کو ضائع نہیں کیا جائے گا (بشرطیکہ) وہ نیکی ہو۔ اے امت محمد! تمہاری ناس ہو جائے، تم تو بہت جلد اپنی ہلاکت کے پیچھے پڑ گئے ہو، ابھی تک تم میں اصحاب رسول کی بھر پور تعداد موجود ہے، ابھی تک تمہارے نبی کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ان کے برتن ٹوٹے ہیں، (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا زمانہ قریب ہی ہے)۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر دین کو اپنا رکھا ہے یا ضلالت و گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہمارا ارادہ تو نیکی کا ہی تھا۔ انہوں نے کہا: کتنے لوگ ہیں جو نیکی کا ارادہ تو کرتے ہیں، لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حدیث بیان کی تھی: ”بعض لوگ قرآن مجید کی تلاوت تو کریں گے، لیکن وہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے (دل میں) نہیں اترے گی، وہ (بیگانے ہو کر) دین سے یوں نکلیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہو جاتا ہے۔“ اللہ کی قسم! مجھے تو کوئی سمجھ نہیں آ رہی، شائد تم میں سے اکثر لوگ (اسی حدیث کا مصداق) ہوں۔ پھر وہ وہاں سے چلے گئے۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں: ہم نے ان حلقے والوں کی اکثریت کو دیکھا کہ وہ نہروان والے دن خوارج کے ساتھ مل کر ہم پر نیزہ زنی کر رہے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 308]
206. حکم نبوی کی پیروی کی مثال
حدیث نمبر: 309
- (يا ضَمْرَةُ! أَتَرَى ثَوْبَيْكَ مَدْخلَيْكَ الجنةَ؟ فقال: لَئِنِ استغفرتَ لي يا رسول الله! لا أَقْعُدُ حتى أَنْزِعَهُما عَنّي. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اللهمَّ! اغفر لضَمْرةّ بنِ ثَعْلَبَةَ).
سیدنا ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں دو یمنی عمدہ پوشاکیں پہن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضمرہ! تیرا کیا خیال ہے کہ یہ کپڑے تجھے جنت میں داخل کرنے والے ہیں؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ میرے لیے بخشش طلب کریں تو بیٹھنے سے پہلے اتار دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ضمرہ بن ثعلبہ کو بخشش دے۔“(یہ دعا سنتے ہی) اس نے جلدی سے کپڑے اتار دیے۔ [سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 309]
207. حدیث نبوی کو پرکھنے کا معیار
حدیث نمبر: 310
-" إذا سمعتم الحديث عني تعرفه قلوبكم وتلين له أشعاركم وأبشاركم وترون أنه منكم قريب، فأنا أولاكم به وإذا سمعتم الحديث عني تنكره قلوبكم وتنفر منه أشعاركم وأبشاركم وترون أنه منكم بعيد فأنا أبعدكم منه".
سیدنا ابوحمید یا سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میری طرف منسوب حدیث سنو (تو دیکھو کہ آیا) تمہارے دل اس سے مانوس ہو رہے ہیں اور تمہارے بال اور چمڑے اس کے لیے نرم ہو رہے ہیں اور تم دیکھ رہے ہو کہ وہ بات تم بھی کر سکتے ہو تو میں ایسی (حدیث بیان کرنے کا) بالاولی مستحق ہوں گا۔ لیکن اگر تم دیکو کہ جو حدیث میری طرف منسوب ہے، تمہارے دل اس کا نکار کر رہے ہیں اور تمہارے بال اور چمڑے اس سے نفرت کر رہے ہیں اور تم دیکھ رہے ہو کہ تم بھی (اس قسم کی) بات نہیں کر سکتے ہو، تو میں اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والا ہوں گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 310]
208. عقائد میں بھی خبر واحد حجت ہے
حدیث نمبر: 311
-" هذا أمين هذه الأمة. يعني أبا عبيدة".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یمنی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ”ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔ آپ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”یہ اس امت کا امین ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 311]
حدیث نمبر: 312
-" إن هذه الأمة تبتلى في قبورها، فلولا أن لا تدافنوا لدعوت الله أن يسمعكم من عذاب القبر الذي أسمع منه. قال زيد: ثم أقبل علينا بوجهه فقال: تعوذوا بالله من عذاب النار، قالوا: نعوذ بالله من عذاب النار، فقال: تعوذوا بالله من عذاب القبر، قالوا: نعوذا بالله من عذاب القبر، قال: تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن، قالوا: نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن، قال: تعوذوا بالله من فتنة الدجال، قالوا: نعوذ بالله من فتنة الدجال".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار جا رہے تھے۔ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر جائیں۔ راوی حدیث جریر کے شک کے مطابق ادھر چار یا پانچ یا چھ قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ان قبر والوں کو جانتا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ لوگ کب مرے تھے؟“ اس نے کہا: شرک کی حالت میں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(انسانوں کی) امت کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے اور اگر تمہارے دفن نہ کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے۔“ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ”اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو آگ کے عذاب سے۔“ ہم نے کہا: ہم آگ کے عذاب سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 312]
209. حدیث نبوی حجت ہے
حدیث نمبر: 313
-" أوتيت الكتاب وما يعدله (يعني: ومثله)، يوشك شبعان على أريكته يقول: بيننا وبينكم هذا الكتاب، فما كان فيه من حلال أحللناه وما كان [فيه] من حرام حرمناه، ألا وإنه ليس كذلك. ألا لا يحل ذو ناب من السباع ولا الحمار الأهلي، ولا اللقطة من مال معاهد إلا أن يستغني عنها، وأيما رجل أضاف قوما فلم يقروه فإن له أن يعقبهم بمثل قراه".
سیدنا مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک (اللہ کی) کتاب دی گئی ہے اور دوسری اس کے برابر یعنی اس کی مثل ایک اور چیز بھی دی گئی ہے۔ قریب ہے کہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے ایک پیٹ بھرا شخص یوں کہے: ہمارے اور تمہارے مابین یہ (اللہ کی) کتاب (ہی کافی ہے)۔ جو چیز اس میں حلال ہے، ہم اسے حلال سمجھیں گے اور جو اس میں حرام ہے، ہم اسے حرام سمجھیں گے۔ خبردار! معاملہ اس طرح نہیں ہے، آگاہ رہو! کچلیوں والا درندہ حلال نہیں ہے اور نہ گھریلو گدھا اور نہ ذمی کی گری پڑی چیز، الا یہ کہ اس سے بے نیاز ہوا جائے۔ اور جو آدمی کسی قوم کا مہمان بنا، جبکہ انہوں نے اس کی ضیافت نہیں کی تو اس کے لیے درست ہے کہ میزبانی کے بقدر ان سے وصول کرے۔“[سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 313]
حدیث نمبر: 314
-" لا يأتي على الناس مائة سنة، وعلى الأرض عين تطرف ممن هو حي اليوم".
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ہو جو کہتے ہو کہ لوگوں پر ابھی تک سو برس نہیں گزریں گے کہ جھپکنے والی آنکھیں ختم ہو جائیں گی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ لوگوں پر ابھی تک سو سال نہیں گزریں گے کہ وہ جھپکنے والی آنکھ ختم ہو جائے گی جو آج زندہ ہے۔“ اللہ کی قسم! اس امت کی امید سو برس کے بعد بھی ہو گی۔ [سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 314]
حدیث نمبر: 315
-" ألا إن الفتنة ههنا، ألا إن الفتنة ههنا [قالها مرتين أو ثلاثا]، من حيث يطلع قرن الشيطان، [يشير [بيده] إلى المشرق، وفي رواية: العراق]".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! فتنہ یہاں ہے، خبردار! فتنہ یہاں ہے (دو یا تین دفعہ فرمایا) یہاں سے شیطان کے سر کا کنارہ طلوع ہو گا۔“ آپ نے یہ فرماتے ہوئے مشرق یا عراق کی طرف اشارہ کیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 315]
حدیث نمبر: 316
- (قدِ اختلفتُم وأنا بين أظهُركم، وأنتُم بعدِي أشدُ اختلافاً).
سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لئے لفظ ”دخان“ چھپایا، پھر اس سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے لفظ ”دخ“ کہہ کر جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذلیل ہو جا، تو ہرگز اپنے درجے (اور حیثیت) سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔“ جب وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس نے کیا جواب دیا تھا؟“ بعض نے کہا: اس نے لفظ ”دخ“ کہا:، جبکہ بعض نے کہا: کہ اس نے لفظ ”زخ“ کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میری موجودگی میں اختلاف میں پڑ گئے ہو اور میرے بعد بہت زیادہ اختلاف کرنے والے ہو گے۔“[سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 316]