ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی صحابی رسول سیدنا عمرو بن الحارث (المصطلقی) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کچھ اسلحہ، ایک خچر اور کچھ زمین چھوڑی تھی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کر دیا تھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 400]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائیں اور فرمانے لگیں: آپ کا وارث کون بنے گا؟ انہوں نے فرمایا: میرے اہل اور اولاد۔ فرمانے لگیں: تو پھر میں اپنے باپ کی وارث کیوں نہیں؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ” ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔“ لیکن میں ان کی کفالت کروں گا جن کی کفالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور میں اس پر خرچ کروں گا جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 401]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «(سنن ترمذي: 1608، وقال: حسن غريب)، مسند احمد (13/1)»
ابوالبختری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، سیدنا عباس اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہما دونوں اپنا جھگڑا لے کر امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، دونوں ہی ایک دوسرے پر بےنظمی کا الزام لگا رہے تھے کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”نبی کا تمام مال صدقہ ہوتا ہے مگر وہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل کو کھلا دیا۔ یقیناً ہم کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے۔“ اس حدیث میں ایک لمبا واقعہ بھی ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 402]
تخریج الحدیث: «حسن» : اس روایت کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ ابوالبختری رحمہ اللہ نے مذکورہ صحابہ میں سے کسی سے ملاقات نہیں کی۔ آنے والی حدیث (403) اور حدیث نمبر 405 اس کے صحیح شواہد ہیں، جن کے ساتھ یہ روایت بھی حسن یا صحیح ہے۔ نیز دیکھئے السلسلۃ الصحیحہ للشیخ الالبانی رحمہ اللہ (2038)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم (انبیاء کی جماعت) کسی کو وارث نہیں بناتے جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 403]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «صحيح بخاري (6730)، صحيح مسلم (1758)»
5. میرے ورثا میرے ترکہ میں درہم و دینار تقسیم نہ کریں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میرے ورثاء درہم و دینار تقسیم نہ کریں میرے ترکہ میں سے میری بیویوں اور عامل کاخرچہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ صدقہ ہے۔“[شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 404]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «صحيح بخاري (3096)، صحيح مسلم (1760)»
6. سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے اختلاف کا فیصلہ
مالک بن اوس بن حدثان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہاں سیدنا عبدالرحمان بن عوف، سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم اجمعین بھی آ گئے۔ اتنے میں سیدنا علی المرتضیٰ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما بھی آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے وہاں پہنچے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھا: میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم (انبیاء کی جماعت) کسی کو وارث نہیں بناتے، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ ان حضرات نے جواب دیا، جی ہاں۔ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ بھی مذکور ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 405]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «صحيح بخاري (3094)، صحيح مسلم (1757)»
7. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں کوئی درہم و دینار اور مویشی نہ تھے
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی درہم و دینار نہیں چھوڑا، نہ کوئی بکری اور نہ کوئی اونٹ چھوڑا، راوی کہتا ہے۔ مجھے غلام اور لونڈی کے بارے میں شک ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 406]
تخریج الحدیث: «صحيح» : اس روایت کی سند امام سفیان بن عیینہ مدلس کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح مسلم (1256) اور سنن ابن ماجہ (2695) وغیرہما میں اس کے صحیح شواہد ہیں، جن کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے۔