سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آخری نظر جس سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا وہ سوموار کا دن تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ اٹھایا تو میں نے آپ کے چہرہ انور کو دیکھا گویا کہ وہ قرآن کریم کا ورق تھا۔ لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے قریب تھا کہ لوگ اپنی جگہوں سے حرکت کر جائیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ اپنی اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کی امامت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردے کو نیچے گرایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے آخر میں وفات پا گئے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 386]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «صحيح بخاري (680) من حديث الزهري، صحيح مسلم (419) من حديث سفيان بن عيينة به.»
2. وفات کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے کی طرف یا فرمایا کہ گود میں ٹیک لگائے ہوئے تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کرنے کے لیے ایک برتن منگوایا، پھر آپ نے اس میں پیشاب کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات واقع ہو گئی۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 387]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «صحيح بخاري (2741)، صحيح مسلم (1636)»
3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری لمحات میں اپنے ہاتھ تر کر کے چہرۂ انور پر پھیر رہے تھے
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ پر موت کی حالت طاری تھی اور آپ کے پاس ایک پیالہ پڑا ہوا تھا جس میں پانی تھا۔ آپ اپنا دست مبارک پیالہ میں ڈالتے پھر پانی سے چہرہ انور صاف کرتے اور فرماتے: ”اے اللہ! موت کی سختیوں میں“ یا فرمایا ”موت کی بے ہوشیوں میں میری مدد فرما۔“[شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 388]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «(سنن ترمذي: 978، وقال: غريب)، سنن ابن ماجه (1623) من حديث الليث بن سعد عن يزيد بن عبدالله بن الحماد به. وصححه الحاكم والذهبي (465/2، 56/3-57)»
4. وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدت مرض
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر شدت تکلیف کا مشاہدہ کرنے کے بعد کسی شخص کی موت کی آسانی پر رشک نہیں ہوا۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میں نے ابوزرعہ سے دریافت کیا کہ یہ عبدالرحمان بن علاء کون شخص ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: یہ عبدالرحمٰن بن علاء بن الجلاج ہیں۔“[شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 389]
تخریج الحدیث: «حسن» : «(سنن ترمذي: 979)، تهذيب الكمال للمزي (503/14)» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن صحیح بخاری (5646) اور صحیح مسلم (2570) وغیرہما میں اس کے شواہد ہیں، جن کے ساتھ یہ حسن یا صحیح ہے۔
5. انبیاء کا جس جگہ انتقال ہوتا ہے اسی جگہ وہ مدفون ہوتے ہیں
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کی جگہ کے بارے مختلف آراء پیدا ہو گئیں۔ تو سیدنا ابوبکر صیدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی ہے جسے میں بھولا نہیں (بلکہ اچھی طرح یاد ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”انبیاء کی وفات وہیں ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ دفن کیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر تھا۔“[شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 390]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف والحديث حسن» : «(سنن ترمذي: 1018، و قال: غريب وعبدالرحمٰن بن ابي بكر المليكي يضعف من قبل حفظه)، مسند ابي بكر لاحمد بن على بن سعيد المروزي (43) عن ابي كريب به.» اس روایت کی سند عبدالرحمٰن بن ابی بکر الملیکی کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن ابن سعد نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا کہ لوگوں نے کہا: آپ کہاں دفن کئے جائیں گے؟ تو ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: جس مکان میں آپ فوت ہوئے ہیں۔ (292/2 وصححہ الحافظ ابن حجر) اس سے دوسرے صحیح شاہد کے لئے دیکھئے حدیث: 397 ان شواہد کے ساتھ یہ حدیث بھی حسن ہے۔ واللہ اعلم فائدہ: سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «مكتوب فى التوراة صفة محمد. عيسي بن مريم يدفن معه» محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صفت تورات میں لکھی ہوئی ہے۔ عیسی بن مریم (علیہ السلام) آپ کے ساتھ (حجرے میں) دفن ہوں گے۔ جمہور کے نزدیک موثق راوی ابو مودود (راوی) نے فرمایا: اور حجرے میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ «(سنن ترمذي: 3617، وقال: ”حسن غريب“ وسنده حسن و أخطأ من قال: ”هذا لا يصح عندي ولا يتابع عليه“)»
6. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ یقیناً سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے بعد بوسہ دیا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 391]
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: یقیناً سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان پر داخل ہوئے اور اپنا لب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکھوں کے درمیان رکھا اور اپنے ہاتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائیوں پر رکھے، اور فرمایا: ہائے اللہ کے نبی، ہائے اللہ کے مخلص ترین ساتھی، ہائے اللہ کے مخلص ترین دوست۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 392]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «مسند احمد (31/6) عن مرحوم بن عبدالعزيز به.»
8. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ہر چیز تاریک ہو گئی
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (ہجرت کے موقع پر) مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو مدینہ کی ہر شی روشن تھی اور جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ہر شہ (غم کی وجہ سے) تاریک تھی۔ ہم نے ابھی ہاتھوں سے خاک نہ جھاڑی تھی اور دفن میں مشغول تھے کہ اسی دوران ہی ہم نے اپنے دلوں کو پہلے سے اجنبی محسوس کیا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 393]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «(سنن ترمذي: 3618، وقال: هذا حديث صحيح غريب)، سنن ابن ماجه (1631) عن بشربن هلال به، صحيح ابن حبان (2162) وصححه الحاكم عليٰ شرط مسلم (57/3) ووافقه الذهبي.»
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سوموار کے دن ہوئی۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: «صحيح» : اس روایت کی سند اگرچہ سخت ضعیف ہے، لیکن اس کے من وعن صحیح شواہد موجود ہیں۔ مثلاً دیکھئے حدیث نمبر 386 ان شواہد کے ساتھ یہ روایت بھی صحیح ہے۔ واللہ اعلم
10. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدھ کی رات کو قبر مبارک میں اتارا گیا
جعفر بن محمد اپنے والد (محمد الباقر) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن فوت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک سوموار اور منگل کی رات تک (لوگوں کے درمیان) رہا اور پھر رات کو تدفین عمل میں آئی۔ راوی سفیان بن عینیہ اور دیگر فرماتے ہیں: ہم نے رات کے آخری حصہ میں پھاؤڑوں کی آواز سنی۔ [شمائل ترمذي/بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 395]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ مرسل یعنی منقطع ہے۔ امام محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب الباقر رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، لہٰذا یہ روایت انھیں کس نے بتائی؟ یہ معلوم نہیں ہے۔ ➋ سفیان بن عیینہ مدلس تھے اور یہ روایت معنعن ہے، نیز دوسرے متن والا روای ”غیرہ“ مجہول ہے۔