امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے۔ انہوں نے کاٹن کی یا سلکی دو رنگی ہوئیں سرخ پھولوں والی چادریں اوڑھ رکھی تھیں۔ انہوں نے ان میں سے ایک کے ساتھ اپنے ناک کو صاف کیا اور فرمایا: زہے زہے ابوہریرہ! آج کتان کے کپڑے سے ناک صاف کر رہے ہو، البتہ قسم ہے کہ مجھ پر ایسی حالت بھی گزری ہے کہ جب میں بھوک کی وجہ سے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرے کے درمیان نیم بے ہوشی کےعالم میں گرا پڑا ہوتا، تو گزرنے والا مجھے دیوانہ سمجھ کر میری گردن کو روندتے ہوئے گزر جاتا، حالانکہ مجھے کسی قسم کی دیوانگی نہ تھی، ایسے صرف انتہائی بھوک کی وجہ سے ہوتا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 368]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 2367، وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (7324)»
مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی روٹی اور نہ ہی گوشت شکم سیر ہو کر اکیلے نہیں کھایا مگر لوگوں کے ساتھ۔ مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ایک دیہاتی سے «ضَفَف» کے معنی پوچھے تو اس نے کہا کہ اس کے معنی ہیں ”لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا تناول کرنا۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 369]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : ◈ مالک بن دینار صحابی نہیں، بلکہ تابعی تھے اور ان تک سند صحیح ہے، لیکن یہ سند مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے ح 377 اس طرح کے دوسرے باب کے لئے دیکھئے باب: 52
سماک بن حرب سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے: کیا تمہاری مرضی کا کھانا اور پینا میسر نہیں؟ میں نے تو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیٹ بھر ردی کھجوریں بھی میسر نہیں تھیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 370]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «صحيح مسلم (2977)» نیز دیکھئے حدیث سابق: 153
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں: ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم مہینہ بھر ٹھہرے رہتے، آگ نہ جلاتے، ہمارے پاس صرف کھجوریں اور پانی ہوتا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 371]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 2471، وقال: هذا حديث صحيح)، صحيح مسلم (2972)»
3. بھوک کی وجہ سے سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہونا
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدت بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے ایک ایک پتھر دکھائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے دو پتھر دکھائے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ابوطلحہ کی روایت سے غریب ہے، ہم اس کو صرف اسی سند کے ساتھ جانتے ہیں اور «ورفعنا عن بطوننا عن حجر حجر» کا معنی ہے کہ ”وہ لوگ مشقت اور کمزوری جو بھوک کی وجہ سے تھی کی بنا پر اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 372]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «(سنن ترمذي: 2371، وقال: غريب . . .)، المعجم الاوسط للطبراني (445/1 ح 803) من حديث سهل بن الم به .» شرح و فوائد: ① دورِ رسالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزاری تھی۔ ② مشکل کشا صرف ایک اللہ ہے۔ ③ یہ حدیث وصال کے روزوں کے علاوہ عام حالات پر محمول ہے، رہے وصال کے روزے تو ان کے دوران میں اللہ تعالٰی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور معجزہ کھلاتا پلاتا تھا، جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔
4. ابوالھیثم بن ہیہاں کا سید المساکین صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین رضی اللہ عنہم کی ضیافت کرنا
فقیہ امت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں گھر سے باہر نکلے جس وقت آپ کہیں نہیں نکلتے تھے اور نہ آپ کو کوئی شخص اس وقت ملتا تھا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! تجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے؟ انہوں نے عرض کی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے، آپ کا چہرہ مبارک دیکھنے اور آپ کو سلام کہنے نکلا ہوں۔ ابھی زیادہ دیر نہ ٹھہرے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”عمر تمہیں کون سی چیز لے آئی ہے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بھوک نکال لائی ہے۔ فرمایا: بھوک تو میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔“ پھر تینوں ہی ابوالہیثم بن تیہاں الانصاری کے گھر کی طرف چلے گئے۔ ابوالہیثم کا کھجوروں کا باغ اور بہت سی بکریاں تھیں مگر ان کے پاس کوئی خادم نہ تھا۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو) ابوالہیشم گھر میں موجود نہیں تھا۔ آپ نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ ”تمہارا خاوند کہاں ہے؟“ تو وہ کہنے لگی: ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ابوالہیثم پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہوئے آ گئے اور مشکیزہ رکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور کہنے لگے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو ساتھ لے کر باغ میں چلے گئے۔ وہاں اس نے ان کے لئے ایک چٹائی بچھا دی اور خود کھجور کے ایک درخت کی طرف گئے تو وہاں سے ایک خوشہ لا کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں تر کھجوریں اتار کر کیوں نہیں لائے ہو؟ پورا خوشہ لے آئے ہو؟“ تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ آپ اپنی پسند کی تر اور ڈوڈی کھجوریں کھا لیں۔ چنانچہ ان تینوں نے کھجوریں کھائیں اور مشکیزہ سے پانی پیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق تم سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا، ٹھنڈے سائے، تر اور پاک عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔“ ابوالہیثم ان کے لیے کھانا تیار کرنے کو جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا“ تو اس نے ان کے لیے سال سے کم عمر کی بھیڑ، یا بکری ذبح کی اور (تیار کر کے) ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپ نے تناول فرما کر ارشاد فرمایا: ”تمہارے پاس کوئی خادم ہے“، عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جب ہمارے پاس قیدی آئیں تو آنا۔ بعد ازاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے جن سے زائد ایک بھی نہ تھا۔ تو سیدنا ابوالہیثم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”ان میں سے ایک کو پسند کر لو“، تو انہوں نے کہا: آپ خود ہی میرے لیے پسند فرمائیں، فرمایا: ”جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ اسے پکڑ لو، کیونکہ میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا۔“ ابوالہیثم رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے پاس جا کر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کہ ”اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا“ کی خبر دی تو وہ کہنے لگی: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو تب ہی پورا کر سکتے ہو جب کہ تم اسے آزاد کر دو۔ وہ فرمانے لگے: یہ آزاد ہے۔ (جب اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا اور نہ ہی کوئی خلیفہ مقرر کیا ہے مگر اس کے دو قابل اعتماد دوست ہوتے ہیں۔ ایک دوست اسے نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا دوست اس کے نقصان میں کمی نہیں کرتا، جو برے دوست سے بچ گیا وہ یقیناً شر سے بچ گیا۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 373]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 2369، وقال: حسن صحيح غريب)» اس روایت کی سند عبدالملک بن عمیر مدلس کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے [انوار الصحيفه ص 253 ] اس روایت کی اصل صحیح بخاری (7198) سنن ابی داود (5128) اور سنن ابن ماجہ (3745) میں مختصر طور پر مذکور ہے اور وہ صحیح ہے۔ عبدالملک بن عمیر کے مدلس ہونے کے لیے دیکھئے [طبقات المدلسين طبقه ثالثه 3/84]
5. بھوک کی وجہ سے پتے کھا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جبڑے زخمی ہو جانا
قیس بن ابوحازم فرماتے ہیں، میں نے سیدنا سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: بلاشبہ میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کے راستے میں خون بہایا، اور پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا، میں خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت میں جہاد کرتا ہوا دیکھ رہا ہوں، ہم جھاڑیوں کے پھل اور کیکر کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے جبڑے زخمی ہو جاتے، اور ہمارا ہر فرد بکری اور اونٹ کی طرح مینگنیاں کرتا تھا۔ اب بنواسد دین کے بارے میں مجھ پر طعن کرتے ہیں (اگر یہ سچ ہے تو) تب تو میں خائب و خاسر ہوا اور میرے تمام اعمال ضائع ہو گئے (مگر ایسے ہر گز نہیں ہو سکتا)۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 374]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف جدًا» : «(سنن ترمذي: 2365، وقال: حسن صحيح)، شرح السنة للبغوي (3923)» اس سند کا راوی عمر بن اسماعیل بن مجالد بن سعید متروک ومجروح ہے، لہٰذا یہ سند سخت ضعیف ہے۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری (6453)، صحیح مسلم (2966) اور سنن ترمذی (2367) والی حدیث صحیح ہے اور وہ اس باطل روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
ابونعامہ عدوی کہتے ہیں کہ میں نے خالد بن عمیر اور ابو الرقاد شویس سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کو (ایک لشکر امیر مقرر کر کے) بھیجا اور فرمایا: ”تم اور تمہارے ساتھی سرزمین عرب کی انتہا اور سرزمین عجم کے قریب تک جاؤ (جب وہاں پہنچو) تو قیام کرنا، یہ تمام لوگ وہاں پہنچے جب مقام مربد میں پہنچے تو وہاں انہوں نے سنگ مرمر پایا تو پوچھا یہ کون سی جگہ ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ بصرہ ہے، تو وہ اور چلتے گئے حتیٰ کہ (دجلہ کے) چھوٹے پل کے پاس پہنچ گئے تو کہنے لگے: اسی مقام پر تمہیں پڑاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ انہوں نے وہیں پڑاؤ کیا۔ پھر انھوں نے لمبی حدیث بیان کی۔ راوی کہتا ہے: پھر عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں خود کو دیکھتا ہوں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتواں شخص تھا، ہمارا کھانا صرف درختوں کے پتے تھے جن کے کھانے سے ہمارے جبڑے پھٹ گئے تھے، مجھے گری ہوئی ایک چادر ملی جس کو میں نے اپنے اور سعد کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر لیا۔ اب ہم ان ساتوں میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی علاقے کا (امیر) گورنر بن گیا ہے، اور تم عنقریب ہمارے بعد آنے والے امراء کا تجربہ کر لو گے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 375]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : یہ سند اس وجہ سے ضعیف ہے کہ صفوان بن عیسٰی کا ابونعامہ سے ان کے اختلاط سے پہلے کا سماع معلوم نہیں اور وہ «صدوق اختلط» سچے، اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (5089) اس باب میں ایک مختصر روایت صحیح مسلم (2967) اور سنن ترمذی (2575) میں دوسری سند سے مروی ہے اور وہ صحیح ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جتنا ڈرایا گیا کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیا، اور مجھے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جتنی تکلیفیں دی گئیں اتنی کسی اور کو نہیں دی گئیں۔ مجھ پر تیس تیس دن رات ایسے گزرے تھے کہ میرے اور بلال کے پاس اتنا کھانا نہ ہوتا جو کوئی جاندار کھا سکے بجز اس تھوڑے سے کھانے کے، جو بلال کی بغل میں چھپا ہوا ہوتا تھا۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 376]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 2472، وقال: هذا حديث صحيح)، سنن ابن ماجه (151)، صحيح ابن حبان (2528)»
8. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر گوشت اور روٹی اکٹھے نہیں ہوئے
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کبھی صبح اور شام کے کھانے میں روٹی اور گوشت اکٹھا نہیں دیکھا گیا مگر جبکہ اور لوگ (مثلاً مہمان وغیرہ) ساتھ شامل ہوں عبداللہ کہتے ہیں: بعض محدثین کے نزدیک «صفف» کا معنی ”ہاتھوں کا زیادہ ہونا ہے۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي عَيْشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 377]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «مسند احمد (270/3)» اس روایت کی سند قتادہ رحمہ اللہ کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس کا ایک ضعیف شاہد 369 نمبر پر یعنی حدیث نمبر 72 سے پہلے گزر چکا ہے۔