سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت خرچ کرنے میں تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے، زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں اس کے ختم ہونے تک نہایت ہی سخی ہوتے، جبرئیل امین علیہ السلام آپ کے پاس آتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قرآن کریم کا دور کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل امین علیہ السلام سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت خرچ کرنے میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 352]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «صحيح بخاري (4997)، صحيح مسلم (2308) من حديث ابراهيم بن سعد به .»
25. آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مال ذخیر ہ نہ کرتے تھے
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو بھی آنے والے دن کے لیے ذخیرہ نہ کرتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 353]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «(سنن ترمذي: 2362، وقال:غريب...)، شرح السنة للبغوي (253/13 ح 3690)، صحيح ابن حبان (2139)»
امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ سے کچھ مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس تو کچھ نہیں، البتہ میرے نام پر خرید لو، جب میرے پاس مال آئے گا تو میں اسے ادا کر دوں گا۔“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اسے وہ دیا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکّلف نہیں بنایا اور نہ ہی وہ آپ کی دسترس اور طاقت میں ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو ناپسند فرمایا اس دوران انصار کے ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! آپ خرچ کرتے رہیں اور عرش والے سے تنگدستی کا خوف دل میں نہ لائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے اور انصاری کی اس بات سے آپ کے چہرے پر خوشی کے اثرات معلوم ہونے لگے پھر آپ نے فرمایا: ”مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 354]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : اس کا راوی موسیٰ بن ابی علقمہ مجہول ہے۔ اور ابوالشیخ الاصبہانی کی کتاب: اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم (ص53) کی ایک روایت میں اس کی ضعیف ومردود متابعت بھی آئی ہے۔ دیکھئے [مختصر الشمائل للالباني: 305 ] جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور روایت ضعیف ہی ہے۔
سیدہ ربیع بنت معوذ بنت عفراء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تر کھجوروں اور چھوٹی ککڑیوں کا تھال لے کر آئی جن پر ابھی روئی باقی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی ہتھیلی بھر کے زیور اور سونا عطا کیا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 355]
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحفہ قبول فرماتے اور اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 356]