سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کی آواز اس طرح آتی تھی جیسا کی ہنڈیا کے جوش مارنے کی آواز ہوتی ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 321]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «سنن ابي داود (904)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں نےعرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر تو قرآن مجید نازل ہوا ہے پھر بھی کیا میں آپ پر پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں میں کسی دوسرے شخص سے قرآن سننا چاہتا ہوں۔“(ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے سورہ نساء پڑھنا شروع کی اور جب «وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 322]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 3025)، صحيح بخاري (4582)، صحيح مسلم (800)»
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دن سورج گرہن ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر قیام فرمایا کہ گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں، اور پھر رکوع اتنا لمبا کیا کہ گویا اس سے اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں، پھر سر مبارک اٹھایا تو قومہ میں بھی اتنی دیر کھڑے رہے کہ قریب نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو قریب نہیں تھا کہ سجدہ سے سر مبارک اٹھائیں، پھر آپ نے سجدہ سے سر مبارک اٹھایا تو اتنا طویل جلسہ کیا کہ قریب نہیں تھا کہ آپ دوسرا سجدہ کریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سجدہ بھی اتنا طویل کیا کہ قریب نہیں تھا کہ آپ سجدہ سے سر مبارک اٹھائیں۔ آپ اس دوران آہیں بھرتے اور روتے رہے اور فرماتے اے میرے پروردگار! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب میں ان میں موجود ہوں تو ان کو عذاب نہیں کرے گا؟، اے میرے پروردگار کیا تو نے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک یہ تجھ سے استغفار کرتے رہیں گے تو ان کو عذاب نہیں دے گا اور ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا، آپ کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”یقیناً سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا جب یہ گہنا جائیں تو فوراً اللہ تعالٰی عزوجل کی یاد کی طرف دوڑو۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 323]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی قریب المرگ تھی آپ نے اسے پکڑا اور اپنی گود میں اٹھایا تو اسی حالت میں فوت ہو گئی جبکہ وہ آپ کے ہاتھوں میں تھی۔ ام ایمن چلا کر رونے لگیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو اللہ کے رسول کے سامنے روتی ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: کیا میں آپ کو روتے ہوئے نہیں دیکھ رہی ہوں؟ ارشاد فرمایا: ” میں رو نہیں رہا ہوں، یہ تو رحمت کے آنسو ہیں۔ بے شک مومن ہر حال میں خیر میں ہی ہوتا ہے جب اس کے پہلو سے اس کی روح پرواز کرتی ہے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے۔ “[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 324]
تخریج الحدیث: «حسن» : «سنن نسائي (1844)»
5. سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا جبکہ وہ فوت ہو چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رو رہے تھے یا کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 325]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 989، وقال: حسن صحيح)، سنن ابي داود (3163)، سنن ابن ماجه (1456)» اس روایت کی سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: 3065) جمہور نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔ (دیکھئے خلاصۃ الاحکام للنووی 87/1 ح 98، عمدۃ القاری للعینی 13/11، اور مجمع الزوائد للہیثمی 150/8) مسند البزار (کشف الاستار: 806) اور حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی (105/1) و غیرہما میں اس روایت کے ضعیف شواہد بھی ہیں۔
6. سیدہ ام کلثوم کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کے جنازہ میں حاضر تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر تشریف فرما تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی ایسا آدمی ہے جو آج رات اپنی بیوی کے پاس نہ گیا ہو؟“ تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ جی ہاں میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قبر میں اترو۔ “ تو وہ قبر میں اترے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 326]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «صحيح بخاري (1285) من حديث ابي عامر العقدي به»