الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


شمائل ترمذي کل احادیث (417)
حدیث نمبر سے تلاش:

شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
10. سوموار اور جمعرات کے روزے کی حکمت
حدیث نمبر: 306
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بار گاہ الہی میں) سوموار اور جمعرات کے دن پیش کئے جاتے ہیں، میری چاہت ہے کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں پیش کیے جائیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 306]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده حسن» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 747، وقال: حسن غريب)، واصله عند مسلم فى صحيحه (2565)»

11. روزوں کے لیے مخصوص ایام؟
حدیث نمبر: 307
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنَ الشَّهْرِ السَّبْتَ وَالْأَحَدَ وَالَاثْنَيْنَ، وَمِنَ الشَّهْرِ الْآخَرِ الثُّلَاثَاءَ وَالْأَرْبَعَاءَ وَالْخَمِيسَ»
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینے میں ہفتے، اتوار اور سوموار کا روزہ رکھتے اور دوسرے مہینے میں منگل بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھتے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 307]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 746، وقال: حسن)»
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ خیثمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے (کچھ) نہیں سنا۔
دیکھئے نیل المقصود (2128) و انوار الصحیفہ (ص 209)
تنبیہ: روایتِ مذکورہ کے بعد اصل مخطوطے میں درج ذیل اضافہ ہے:
ابو عیسی (ترمذی) نے کہا: یزید الرشک یزید الضبعی البصری ہیں، وہ ثقہ ہیں، ان سے شعبہ، عبدالوارث بن سعید، حماد بن زید، اسماعیل بن ابراہیم اور کئی اماموں نے روایت بیان کی، وہ یزید القاسم ہیں اور انھیں یزید القسام بھی کہا جاتا ہے۔ اہلِ بصرہ کی زبان میں قسام (بہت اچھے طریقے سے تقسیم کرنے والے) کو رشک کہتے ہیں۔
(یہ اضافہ حدیث نمبر 303 کے آخر میں ہونا چاہئے-واللہ اعلم)

12. ابتداء میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا
حدیث نمبر: 308
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةُ وَتُرِكَ عَاشُورَاءُ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ»
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھا کرتے تھے، پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن میں خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو صرف رمضان کے روزے بطور فرض رہ گئے اور عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس نے چاہا اس دن کا روزہ رکھ لیا اور جس نے چاہا اسے چھوڑ دیا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 308]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 753، وقال: وهو حديث صحيح)، صحيح بخاري (2002)، وصحيح مسلم (1125)»

13. عبادت کے لیے کسی دن کو مخصوص کرنا
حدیث نمبر: 309
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخُصُّ مِنَ الْأَيَامِ شَيْئًا؟ قَالَتْ: «كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً، وَأَيُّكُمْ يُطِيقُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطِيقُ»
امام علقمہ کہتے ہیں میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دن کو عبادت کے لئے مخصوص کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمیشہ کا ہوتا۔ تم میں کون ہے جو ایسے طاقت رکھتا ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت رکھتے تھے؟ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 309]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«صحيح بخاري (1987)، وصحيح مسلم (783)»

14. اعمال میں اعتدال ضروری ہے
حدیث نمبر: 310
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ؟» قُلْتُ: فُلَانَةُ لَا تَنَامُ اللَّيْلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَيْكُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا» ، وَكَانَ أَحَبَّ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس ایک عورت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ فلاں عورت ہے، جو ساری رات سوتی نہیں (بلکہ قیام کرتی ہے)، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اعمال اختیار کرو جن کی تم طاقت رکھتے ہو، اللہ کی قسم! بلاشبہ اللہ تعالیٰ (تمہیں ثواب دینے سے) نہیں تھکتا، لیکن تم عمل کرنے سے اکتا جاؤ گے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پسندیدہ عمل وہ تھا جس پر اس کا عمل کرنے والا ہمیشگی اختیار کرے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 310]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«‏‏‏‏(سنن ترمذي: 2856 ب مختصرا، وقال: صحيح)، صحيح بخاري (6462)»

15. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سے اعمال پسند تھے؟
حدیث نمبر: 311
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ، أَيُّ الْعَمَلِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتَا: «مَا دِيمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ»
ابوصالح فرماتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کون سا عمل زیادہ پسندیدہ تھا؟ تو انھوں نے فرمایا: جسے ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 311]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«‏‏‏‏(سنن ترمذي: 2856، وقال: حسن صحيح غريب)، مسند احمد (32/6، 289)»
اس روایت کی سند میں سلیمان الاعمش مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں، لیکن شواہد کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے۔ مثلاً دیکھئے حدیث سابق: 310

16. نفلی نماز میں دعائیں اور التجائیں
حدیث نمبر: 312
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَاصِمَ بْنَ حُمَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَاسْتَاكَ ثُمَّ تَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ مَعَهُ فَبَدَأَ فَاسْتَفْتَحَ الْبَقَرَةَ فَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ فَمَكَثَ رَاكِعًا بِقَدْرِ قِيَامِهِ، وَيَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ رُكُوعِهِ، وَيَقُولُ فِي سُجُودِهِ: «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» ثُمَّ قَرَأَ آلَ عِمْرَانَ ثُمَّ سُورَةً سُورَةً يَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ
عاصم بن حمید فرماتے ہیں، میں نے سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ میں ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کرنے کے بعد وضو کیا اور پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ آپ نے شروع میں سورہ بقرہ پڑھی، آپ رحمت والی جس آیت سے گزرتے، وہاں ٹھہر کر اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرتے اور عذاب کی جس آیت سے بھی گزرتے وہاں ٹھہر کر اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اس میں قیام کے برابر ٹھہرے اور رکوع میں یہ دعا پڑھتے تھے: «سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة» یعنی پاک ہے اللہ جو بڑا زبردست اور بادشاہی، بڑائی اور عظمت والا ہے۔ پھر رکوع کے برابر ہی سجدہ کرتے اور اس میں بھی یہی دعا: «سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة» پڑھتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسری رکعت میں) سورہ آل عمران پڑھی، پھر ایک ایک سورت پڑھتے اور اسی طرح (پہلی رکعت کی طرح) کرتے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 312]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«سنن ابي داود (873)»


Previous    1    2