ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو ایک قصہ سنایا تو ان میں سے ایک خاتون نے کہا: یہ قصہ تو خرافہ کے قصہ کی طرح ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم جانتی ہو کہ خرافہ کون تھا؟ (پھر خود ہی ارشاد فرمایا) یہ بنو عذرہ کا ایک شخص تھا جس کو زمانہ جاہلیت میں جنات پکڑ کر لے گئے تھے اور وہ ان میں ایک عرصہ تک رہا۔ پھر جنوں نے اسے انسانوں کی طرف واپس بھیج دیا۔ اس نے جنوں میں جو عجیب و غریب واقعات دیکھے تھے وہ ان لوگوں سے بیان کرتا تو لوگ کہتے تھے کہ یہ خرافہ کی بات ہے۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّمَرِ/حدیث: 251]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : اس روایت کی سند میں مجال بن سعید الہمدانی برے حافظے کی وجہ سے جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ بطور فائدہ عرض ہے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نماز عشاء سے پہلے سونا اور بعد میں باتیں کرنا مکروہ وممنوع ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (568) اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کے بعد گفتکو فرمائی ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (116، 117) وصحیح مسلم (763، 2537) ان دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ عشاء کے بعد فضول وبے فائدہ گفتگو منع ہے اور ضروری اور مفید گفتگو جائز ہے۔ واللہ اعلم
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ گیارہ عورتیں (ایک جگہ) جمع ہو کر بیٹھیں، انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ وہ اپنے خاوند کا صحیح حال بیان کریں اور کوئی بات نہ چھپائیں۔ چنانچہ پہلی عورت بولی میرے خاوند کی مثال دبلے اونٹ کے گوشت کی طرح ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر ہے جس کا راستہ بہت دشوار گزار ہے کہ نہ تو آسانی سے چڑھ کر کوئی اسے لا سکتا ہے اور نہ ہی وہ گوشت ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لیے کوئی اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔ دوسری عورت نے کہا: میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی، پھر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کر سکتی ہوں۔ تیسری عورت نے کہا: میرا خاوند ناپسندیدہ قد کاٹھ کا لمبا تڑنگا آدمی ہے اگر اس کے بارے میں کچھ بولوں تو طلاق ہو جائے گی اور اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی ہوں۔ چوتھی عورت نے کہا: میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل ہے نہ بہت زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا، اس سے مجھے کوئی خوف ہے نہ اکتاہٹ ہے۔ پانچویں نے کہا: میرا خاوند گھر میں آتا ہے تو ایک چیتے کی طرح اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر کی طرح، جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتا (کہ اتنا بے پرواہ ہے۔) اور سخی اتنا ہے کہ جو آج کمایا اسے آج ہی خرچ کیا کل تک کے لیے اٹھا نہیں رکھتا۔ چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند اگر کھائے تو سب کچھ لپیٹ جائے اگر پئیے تو ایک بوند بھی نہیں چھوڑتا، اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لے کر الگ پڑا رہتا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد معلوم کرے۔ ساتویں عورت کہنے لگی: میرا خاوند جاہل یا مست یا نامرد ہے دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کر کے جمع ہیں وہ سب اس اکیلے کی ذات میں جمع ہیں، (کوئی پتا نہیں کب) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کام کر ڈالے۔ آٹھویں عورت نے کہا: میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور سونگھو تو زعفران جیسا خوشبودار ہے۔ نوویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور بلند ہے۔ وہ خود قد آور اور بہادر ہے۔ اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر جمع ہیں، لوگ جہاں صلاح مشورہ کے لیے بیٹھتے ہیں میرے خاوند کا گھر اس جگہ سے بہت قریب ہے۔ دسویں عورت نے کہا: میرا خاوند بڑا مال دار ہے اور جائداد والا ہے، جائداد بھی ایسی کہ اتنی کسی کے پاس نہیں ہو سکتی، بہت سارے اونٹ اس کے گھر کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں،جیسے ہی یہ باجے کی آواز سنتے ہیں انہیں اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ گیارہویں عورت کہنے لگی: میرا خاوند ابو زرع ہے، اس کا کیا کہنا۔ اس نے میرے کان زیوروں سے اور بازو چربی سے بھر دیے ہیں، مجھے خوب کھلا کر اس نے اتنا فربہ کر دیا ہے کہ میں خود بھی اپنے آپ کو موٹی تازی اور فربہ سمجھنے لگی ہوں، شادی سے پہلے میں تھوڑی سی بھیڑ بکریوں میں تنگی و ترشی سے گزر بسر کرتی تھی، ابوزراع نے مجھے گھوڑوں، اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا ہے، اتنی زیادہ جائیداد و دولت ہونے کے باوجود اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا، سوئی پڑی ہوں تو صبح تک مجھے کوئی بھی بیدار نہیں کرتا، میں پانی پیوں تو خوب سیراب ہو کر بافراغت پیتی ہوں۔ رہی ابوزرع کی والدہ (میری ساس) تو میں اس کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں؟ اس کا توشہ مال و اسباب سے بھرا ہوا، اس کا گھر بہت ہی کشادہ۔ رہا ابو زرع کا بیٹا تو وہ بھی کیسا اچھا اور خوبصورت ہے۔ وہ ننگی تلوار کی طرح حسن و جمال میں چمک دار ہے اور ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کی دستی کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے۔ رہی ابو زرع کی بیٹی! اس کے بھی کیا کہنے؟ وہ اپنے باپ کی پیاری، ماں کی دلاری، تابعدار اور فرماں بردار و اطاعت گزار، کپڑا بھرپور پہننے والی (فربہ اندام) جو اپنی سوتن کے جلن کا باعث بنے۔ رہی ابوزرع کی لونڈی! تو اس کے کیا کہنے؟ ہماری کوئی بات اور راز کبھی افشا نہیں کرتی، کھانے نہیں چراتی اور کوڑا کچرا نہیں چھوڑتی، مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کا دودھ مَل رہے تھے کہ صبح دم ابوزرع گھر سے باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے چیتوں جیسے دو بچے اس کی کمر کے تلے دو اناروں (پستانوں) سے کھیل رہے تھے۔ ابوزرع نے مجھے طلاق دے کر اس نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شرافت کے پیکر سردار سے نکاح کر لیا جو گھڑ سواری کا ماہر، عمدہ نیزہ باز اور تلوار کا دھنی ہے اس نے بھی مجھے بہت سے جانور (گھوڑے، اونٹ اور بکریاں) دے رکھے ہیں اور ہر قسم کے مال و اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع! خوب کھا پی۔ اپنے عزیز و اقارب کو بھی خوب کھلا پلا، تیرے لیے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ جو بھی اس نے مجھے دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو ابوزرع کے ایک جھوٹے برتن کو بھی نہیں پہنچتا۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے ابوزرع کی طرح ہوں جس طرح وہ ام زرع کے لیے تھا۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّمَرِ/حدیث: 252]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «صحيح بخاري (5189)، صحيح مسلم (2448)»